Maktaba Wahhabi

579 - 704
ہیں۔ لڑکی نے کہا: ایک آدمی اُس بھیڑ کے آگے آگے آتے جاتے دوڑ رہا ہے۔ ابو قحافہ نے کہا: بیٹی، وہ گھوڑ سواروں کا قائد ہے، تھوڑی دیر کے بعد لڑکی نے کہا: سارے گھوڑ سوار بکھرگئے۔ انہوں نے کہا: جب گھوڑ سوار آگے بڑھنے لگیں تو مجھے فوراً گھر لے چلو۔ لڑکی ان کو لے کر واپس چل پڑی، اور گھوڑ سواروں نے ابو قحافہ کو گھر پہنچنے سے پہلے آلیا، لڑکی کے گلے میں چاندی کا ایک طوق تھا جسے ایک آدمی نے نکال لیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ میں داخل ہوئے، اور مسجد حرام میں آئے، تو ابو بکر رضی اللہ عنہ اپنے والد کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اُن کو دیکھا تو کہا: اِن کو گھر میں ہی کیوں نہیں رہنے دیا، میں خود اِن کے پاس آتا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ! اِن کے لیے آپ کے پاس چل کر آنا زیادہ مناسب تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو اپنے سامنے بٹھایا، ان کے سینہ پر ہاتھ پھیرا، پھر فرمایا: اسلام لے آئیے، تو وہ اسلام لے آئے۔ اور ابو بکر رضی اللہ عنہ جب اپنے والد کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے، تو اُن کے سر کے بال بالکل سفید تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اِن کے بال میں خضاب لگا دیجیے۔ [1] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مکہ میں داخل ہونا: مکہ کے کچھ گنوار اور کم اندیش افراد نے عکرمہ بن ابو جہل، صفوان بن امیّہ اور سہیل بن عمرو کے ساتھ خندمہ محلہ میں بیٹھ کر مسلمانوں سے قتال کرنے کی بات کی، اور جب مسلمانوں سے مڈبھیڑ ہوئی تو کچھ دیر تک ڈٹے رہے، پھر پسپا ہوگئے۔ اُسی درمیان مسلمانوں میں سے کرز بن جابر فہری اور خُنیس بن خالد بن ربیعہ رضی اللہ عنھما شہید کر دیئے گئے، یہ دونوں خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے گھوڑ سواروں میں شامل تھے، لیکن راستہ بھٹک گئے اور کسی دوسری طرف نکل گئے، اور قتل کر دیے گئے۔ مشرکوں میں سے تقریباً بارہ اشخاص مارے گئے، باقی شکست کھا کر بھاگ پڑے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ میں داخل ہوئے، تو دیکھا کہ قریش نے اپنے کچھ اوباشوں کو آگے کر رکھا ہے، اُن کا خیال تھا کہ ہم اِنہیں آگے رکھتے ہیں، اگر قریش کو ان کے ذریعہ کچھ کامیابی ملی تو ہم ان کے ساتھ ہو جائیں گے، اور اگر یہ مارے گئے تو محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہم سے جو مانگے گا اسے پورا کریں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اے ابو ہریرہ! ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول !میں حاضر ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ذرا انصار کو آواز دو، اور دیکھو انصار کے سوا کوئی نہ آئے۔ چنانچہ انصار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع ہو ئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ قریش کے اوباشوں اور اُن کے پیچھے چلنے والوں کو دیکھ رہے ہو۔ پھر اپنے دونوں طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ان کا صفایا کرکے تم سب مجھ سے صفا پہاڑی پر ملو۔ پھر تو جس نے بھی کسی کوقتل کرنا چاہا، اسے قتل کر دیا، اُن کی طرف سے ہمارے خلاف کوئی مزاحمت نہیں ہوئی۔ [2]
Flag Counter