Maktaba Wahhabi

345 - 704
سُہیل بن عمر وبحیثیتِ قیدی: سہیل بن عمرو بھی قید کیا گیا تھا، لیکن مقام روحاء پر مالک بن دُخشم کے پاس سے بھاگنے میں کامیاب ہوگیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی اسے پالے اسے قتل کردے، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ببولوں کے درختوں کے درمیان چُھپا ہوا پایا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے ساتھ اس کی تلاش میں نکلے، تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ ! مجھے اجازت دیجیے کہ اس کے دونوں اگلے دانت توڑدوں تاکہ اس کی زبان نکلی رہے، اور آپ کے خلاف پھر کبھی بات نہ کرسکے، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اس کا مُثلہ نہیں کروں گا(یعنی اس کی شکل نہیں بدلوں گا) تاکہ اللہ میرا مثلہ نہ کرے، اگرچہ میں نبی ہوں، اور ممکن ہے کہ وہ ایک دن ایسا کام کرجائے جسے تم پسند کروگے، چنانچہ وہ اسلام لے آیا، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مکہ جاکر ابو بکر رضی اللہ عنہ کا خطبہ لوگوں کے سامنے اسی طرح دہرایا جیسا اس نے مدینہ میں سنا تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ کو جب سہیل رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ خبر ملی تو کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں، ان کی مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گزشتہ بات تھی کہ شاید وہ کوئی ایسا کام کرجائے جسے تم پسند کروگے۔ [1] ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں: یہی وہ کام ہے جو سہیل رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مکہ میں کیا، جب کئی عرب مرتد ہوگئے اور مدینہ او را س کے آس پاس کے علاقوں میں نفاق پھوٹ پڑا تھا تو اُس وقت سہیل رضی اللہ عنہ نے مکہ میں لوگوں کے سامنے خطبہ دیا، اور انہیں دینِ حنیف پر ثابت قدم رکھا۔ [2] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد ابو العاص رضی اللہ عنہ بحیثیت قیدی: قیدیوں میں سیّدہ زینب رضی اللہ عنہما بنت الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے شوہر ابو العاص بن ربیع بھی تھے، جنہیں فراش بن صمعہ نے قید کیا تھا، ابوالعاص مال اور امانت وتجارت کے اعتبار سے مکہ کے معدودے چند لوگوں میں سے تھے، اور ان کی ماں خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہ کی بہن ہالہ بنت خویلد تھیں، اور کفارِ مکہ نے ابو لہب کے بہکانے میں آکر ابو العاص سے کہا تھا کہ تم اپنی بیوی کو طلاق دے دو، اور ہم تمہاری شادی قریش کی اس عو رت سے کردیں گے جس سے تم شادی کرنا چاہوگے، تو انہوں نے کہا تھا: نہیں، اللہ کی قسم! میں اپنی بیوی کو ہرگز نہیں چھوڑوں گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دامادوں میں ان کی تعریف کیا کرتے تھے، اسلام نے زینب رضی اللہ عنہما اور ابو العاص رضی اللہ عنہ کے درمیان تفریق کردی تھی، لیکن ان دونوں کے درمیان عملی طور پر جدائی نہیں ہوئی تھی، اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں حلال اورحرام کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے، بلکہ اپنے حال میں خو دپریشان رہتے تھے۔ جب اہلِ مکہ نے اپنے قیدیوں کو آزاد کرانے کے لیے فدیہ بھیجا تو زینب رضی اللہ عنہما نے بھی اپنے شوہر کے فدیہ کے لیے مال اور اپنا وہ ہار بھیجا جو ان کی والدہ خدیجہ رضی اللہ عنہما نے ابو العاص رضی اللہ عنہ کے گھر انہیں رخصت کرتے وقت دیا تھا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ ہار دیکھا تو آپ پر شدید رقت طاری ہوگئی اور فرمایا: اگر تم چاہو تو زینب کے قیدی کو چھوڑدو، اور اس کا مال اور ہار اسے واپس کردو، لوگوں نے کہا: ہاں، یا رسول اللہ! پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آزاد کردیا، اور سیّدہ زینب رضی اللہ عنہما کی چیزیں انہیں واپس بھیج دیں۔
Flag Counter