پاس آئے اور کہا: اے اللہ کے رسول ! زبیر نے بُعاث کے دن مجھ پر احسان کیا تھا، اس لیے میں چاہتا ہوں کہ اس موقع سے اس کے اس احسان کا بدلہ چکا دوں، آپ اسے میرے لیے ہبہ کردیجیے، رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ تمہارے لیے ہے، زبیر نے کہا: میں ایک بوڑھا آدمی ہوں، یثرب میں نہ میرے اہل وعیال ہیں اور نہ مال واسباب، میں زندہ رہ کر کیا کروں گا، یہ سن کر ثابت رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور کہا: اے اللہ کے رسول! آپ مجھے اس کا لڑکا بھی دے دیجیے، چنانچہ آپؐ نے اس کا لڑکا ان کے حوالے کردیا، ثابت رضی اللہ عنہ نے پھر کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے اس کے بال بچے اور اس کا مال بھی دے دیجیے، آپ نے انہیں اس کا مال اور اس کے بال بچے بھی دے دیئے۔ ثابت رضی اللہ عنہ زبیر کے پاس گئے، اور اس کو ان تمام باتوں کی اطلاع دی، زبیر نے ثابت سے کعب بن اسد، حُیَيْ بن اخطب، عزال بن سموأل، نباش بن قیس، وہب بن زید، عقبہ بن زید اور دونوں عمرو کے بارے میں پوچھا جوایک ساتھ بیٹھ کر تورات پڑھا کرتے تھے۔ ثابت نے ان میں سے ہر ایک کے بارے میں اسے بتایا کہ وہ قتل کردیا گیا،زبیر نے کہا: اے ثابت! ان تمام کے قتل کردیے جانے کے بعد اب زندہ رہنے میں کوئی خیر نہیں، کیا میں اکیلا اُس گھر میں واپس جاؤں جس میں یہ لوگ رہا کرتے تھے، اور کیا مجھے ان سب کے بعد اس گھر میں ہمیشہ کی زندگی مل جائے گی؟ مجھے ایسی زندگی کی ضرورت نہیں۔ یہ سن کر ثابت رضی اللہ عنہ نے اسے زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کی طرف بڑھادیا،اور انہوں نے اس کی گردن ماردی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبیر کا مال اور اس کے بال بچے اس کے لڑکے کے حوالے کردیا، اور اس کی بیوی کوآزاد کردیا، اور ہتھیار کے سوا ان کے تمام مال واسباب یعنی کھجور کا باغ اور اونٹ وغیرہ بھی ان کو لوٹا دیئے، اور یہ سب لوگ ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کے خاندان والوں کے ساتھ رہنے لگے۔
ایک شبہ کا ازالہ:
بعض معاصرمؤلفین نے امام بخاری ومسلم رحمہم اللہ اوردیگر محدثین کی روایت کردہ ان صحیح احادیث کا انکار کیا ہے جن میں بنو قریظہ کے بالغ مردوں کے قتل کا ذکر آیا ہے، اور وہ اس خام خیالی میں مبتلا ہوگئے ہیں کہ انہوں نے اپنے اس اندازِ فکر کے ذریعہ اسلام کا دفاع کیا ہے، ان کے زعمِ باطل کے مطابق ان یہود کے قتل کا اعتراف انسانی احساسات کو مجروح کرنے کے مترادف ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے خلاف صہیونی طاقتوں کی تائید کرنی ہے۔
سنتِ نبوی کے بارے میں اس قسم کی تحریریں اس بات کی دلیل ہیں کہ وہ مؤلفین ذہنی طور پر شکست خوردہ ہیں اور اسلام میں سنتِ نبوی کی اہمیت سے ناواقف ہیں، نیز اللہ تعالیٰ پر عدمِ اعتماد اور فہمِ قرآن وسنت میں ان کی سطحیت کی دلیل ہے۔
بنوقریظہ کے بالغ مرد اس خیانت عظمیٰ کے سبب قتل کیے گئے جس کا انہوں نے ارتکاب کیا تھا، اگر اللہ تعالیٰ کا فضلِ خاص اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام اوران کے اہل وعیال پر اللہ کی نظرِ کرم نہ رہی ہوتی تو دشمنانِ اسلام نے یہودِ بنی قریظہ کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے وجود کو ہی ختم کردیا ہوتا، اور انہیں انہی جیسی خندقوں میں ذبح کردیا جاتا جو خندق یہود کے لیے کھودی گئی تھی، اور دنیا سے اسلام کا وجود ہمیشہ کے لیے مٹ جاتا۔ اور ان تمام مہلک اور خطرناک نتائج کا بنیادی سبب بنوقریظہ کی غداری اور ان کی خیانت ہوتی، اس لیے کہ مسلمانوں نے خندق اس لیے کھودی تھی کہ دشمنانِ اسلام مدینہ میں نہ داخل ہوسکیں، اور بنوقریظہ کی طرف سے انہیں کلی طور پر اطمینان تھا، چونکہ مسلمانوں کے ساتھ اُن کا دفاعی معاہدہ تھا، لیکن جب انہوں نے
|