Maktaba Wahhabi

468 - 704
اس نے مجھے تمہارے قبضے میں کردیا، اور میں تمہاری دشمنی میں ہرجگہ پہنچا، لیکن اللہ جس کو رسوا کرنا چاہے وہ رسوا ہوکر رہتا ہے۔ پھر اس کی گردن مار دی گئی۔ پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کعب بن اسد کو لایا گیا جس کے دونوں ہاتھ اس کی گردن کے ساتھ بندھے ہوئے تھے، یہ خوبصورت آدمی تھا، رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تم کعب بن اسد ہو؟ اس نے کہا:ہاں، اے ابوالقاسم! اگر مجھے یہودیوں نے تلوار سے خوف کھا جانے کا عار نہ دلایا ہوتا تو میں تمہاری اتباع کرلیتا، میں اب بھی یہود کے دین پر ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: اسے آگے لے جاؤ، اور اس کی گردن ماردو، چنانچہ اس کی گردن مار دی گئی۔ [1] نباتہ نضیریہ (عورت) کو قتل کیا گیا، اس لیے کہ اس نے خلاد بن سوید رضی اللہ عنہ پر کسی مکان کے اوپر سے چکی گراکر ان کا سر کچل دیا تھا، جس کے سبب وہ شہید ہوگئے تھے۔ بالغ ونابابغ کے درمیان تمیز: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نابالغوں اور بالغوں کے درمیان تمیز کرنے کے لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو حکم دیا کہ وہ دیکھیں، جس کے زیر ناف بال اُگ آئے ہیں اسے قتل کردیا جائے، اور جس کے بال نہیں اُگے ہیں اسے نہ قتل کیا جائے۔ عطیہ قرظی کہتے ہیں: میرے بال نہیں اُگے تھے (اس لیے مجھے قتل نہیں کیا گیا)۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ لوگوں نے میرا زیرناف کھول کر دیکھا تو انہیں کوئی بال اُگا ہوا نہیں ملا اس لیے مجھے قیدیوں میں شمار کرلیا گیا۔ [2] مقتولین کی تعداد: بنوقریظہ کے مقتولین کی تعداد میں اختلاف ہے، امام احمد رحمہ اللہ نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ ان کی تعداد چار سو تھی، اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں لکھا ہے کہ ابن اسحاق کے نزدیک ان کی تعداد چھ سو تھی، اور ابن عائذ نے قتادہ رحمہ اللہ کی ایک مرسل روایت نقل کی ہے کہ ان کی تعداد سات سو تھی۔ سہیلی نے لکھا ہے: سب سے زیادہ ان کی تعداد بتانے والے کہتے ہیں کہ وہ آٹھ سو اور نوسو کے درمیان تھے، اور ترمذی، نسائی اور ابن حبان کے نزدیک سیّدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے سند صحیح کے ساتھ مروی حدیث کے مطابق اُن مقتولین کی تعداد چار سو تھی۔ ان تمام اقوال کے درمیان مطابقت پیدا کرنے کے لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کے مقاتلین کی تعداد چار سو تھی اور باقی مقتولین اُن کے دوسرے لوگ تھے، اور ابن اسحاق نے ایک قول نقل کیا ہے کہ تمام مقتولین نو سو تھے۔ [3] زبیر بن باطا ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کوہبہ کر دیا گیا: زبیر بن باطا نے جنگ ِ بُعاث کے دن ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ پر احسان کیا تھا، اس لیے ثابت رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے
Flag Counter