Maktaba Wahhabi

352 - 704
بھیج کر جنگ کی خبر دینی چاہی تھی، اور عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی گردن ماردینے کی اجازت مانگی تھی، اس لیے کہ انہوں نے اللہ، اس کے رسول اور مومنوں کے ساتھ خیانت کی تھی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ غزوۂ بدر میں شریک ہوئے ہیں، اور اللہ تعالیٰ یقینا اہلِ بدر کے دلوں پر مطلع تھا، اسی لیے کہا: اے اہلِ بدر! تم جو چاہوکرو،تمہارے لیے جنت واجب ہوگئی، یاتمہیں بخش دیا گیا۔ راوی کہتے ہیں: یہ سن کر عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے، اور کہنے لگے: اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ [1] 4- امام مسلم رحمہ اللہ نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ حاطب بن ابو بلتعہ رضی اللہ عنہ کا ایک غلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ان کی شکایت لے کر آیا اور کہنے لگا: یا رسول اللہ! حاطب ضرور جہنم میں جائے گا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم جھوٹ بولتے ہو، وہ جہنم میں نہیں داخل ہوں گے، وہ تو غزوۂ بدر اور صُلح حدیبیہ میں شریک ہوئے ہیں۔ [2] 5- امام مسلم وترمذی رحمہما اللہ نے جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ آدمی ہرگز جہنم میں داخل نہیں ہوگا جو غزوۂ بدر اور صلح حدیبیہ میں شریک ہوا ہے۔ [3] قتلِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سازش: عُمیر بن وہب مکہ کے شیطانوں میں سے ایک شیطان تھا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کو ایذا پہنچاتا تھا، اور معرکۂ بدر سے بچ کر بھاگنے والے مشرکین جب مکہ واپس پہنچے تو معلوم ہوا کہ اُس کا بیٹا وہب بن عُمیر قیدی بنالیا گیاہے۔ ایک دن وہ صفوان بن امیّہ کے ساتھ حِجر میں بیٹھا تو صفوان نے کہاکہ اللہ کی قسم! ہمارے قیدیوں اور مقتولین کی خبروں کے بعد اب زندگی میں کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ عُمیر نے کہا: تم نے سچ کہا، اللہ کی قسم! اگر مجھ پر لوگوں کا قرض نہ ہوتا، اور بچے نہ ہوتے جن کے میرے بعد ضائع ہوجانے کا ڈر ہے، تو میں مدینہ جاکر محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو قتل کردیتا، اورمیرے پاس وہاں جانے کا ایک معقول بہانہ یہ ہے کہ میرا بیٹا وہاں مسلمانوں کے پاس قیدی ہے۔ صفوان نے کہا: میں تمہارے قرض کی ادائیگی کی ذمہ داری لیتا ہوں، اور تمہارے بچے میرے بچوں کے ساتھ زندگی بھر رہیں گے، میں اُن کی دیکھ بھال کروں گا۔ عمیر نے کہا: پھر ہم دونوں کی اس بات کو تیسرا نہ جانے، صفوان نے کہا: میں ایسا ہی کروں گا۔ پھر عُمیر نے اپنی تلوار کو تیز اور زہر آلود بنایا، اور مدینہ پہنچ گیا، سب سے پہلے اُسے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ وہ اپنی اونٹنی کو مسجد کے دروازہ پر بٹھا رہا ہے، اور اُس کی گردن میں تلوار لٹک رہی ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے دل میں کہا کہ یہ عُمیر اللہ کا دشمن یقینا بُری نیت سے آیا ہے، اِسی نے بدر کے دن کافروں کو ہمارے خلاف بھڑکایا تھا، اور ہماری تعداد کا اندازہ لگایا تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے اور کہا: اے اللہ کے نبی! اللہ کا دشمن عمیر اپنی تلوار گردن میں لٹکائے آیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اُسے میرے پاس لے آؤ، عمر رضی اللہ عنہ گئے، اور اُسے اُس کی گردن میں لٹکتی تلوار کے نیام سے پکڑ کر لے آئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: عمر! اسے چھوڑ دو۔ پھر کہا: عُمیر، میرے قریب آؤ۔وہ قریب ہوا اور اہل جاہلیت کی عادت کے
Flag Counter