ابو معبد نے کہا: اے امّ معبد! مجھے ان کی صفت بیان کرو، تو انہوں نے کہا: میں نے ایک ایسا آدمی دیکھا جن کا حلیہ یہ تھا؛ چمکتا رنگ، تابناک چہرہ، خوبصورت ساخت، نہ بڑی توند والا نہ گنجے سروالا، جمالِ جہاں تاب کے ساتھ ڈھلا ہوا پیکر، سرمگیں آنکھیں، لمبی پلکیں، بھاری آواز، لمبی گردن، سفید وسیاہ آنکھیں، سیاہ سرمگیں پلکیں، باریک اورباہم ملے ہوئے ابرو، چمکدار کالے بال، خاموش رہیں تو باوقار، گفتگو کریں تو پرکشش، دور سے دیکھنے میں سب سے تابناک وپرجمال، قریب سے سب سے خوبصورت وحسین، گفتگو میں چاشنی، بات میں وضاحت اور دو ٹوک، نہ مختصر نہ فضول، انداز ایسا کہ گویا لڑی سے موتی جھڑ رہے ہیں ، درمیانہ قد، نہ ناٹا کہ نگاہ میں نہ جچے اور نہ لمبا کہ ناگوار لگے، دوشاخوں کے درمیان ایسی شاخ کی طرح جو سب سے زیادہ تازہ اور خوش منظر ہے۔ آپ کے رفقاء آپ کے گردحلقہ بنائے ہوئے، کچھ فرمائیں تو توجہ سے سنتے ہیں، کوئی حکم دیں تو لپک کر اسے بجالاتے ہیں، مطاع ومکرم، نہ ترش رو، نہ لغو گو۔
ابو معبد نے کہا: یہ تو اللہ کی قسم! وہی آدمی ہیں جنہیں قریش والے ڈھونڈ رہے ہیں، اگر وہ مجھے مل گئے تو میں ان کا ساتھی بن جاؤں گا، اورمیں اس کے لیے پوری کوشش کروں گا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ سے ملاقات:
امام بخاری نے زہری رحمہم اللہ سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں : مجھے عروہ بن زبیر رحمہ اللہ نے خبر دی ہے کہ مدینہ جاتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات زبیر رضی اللہ عنہ سے ہوئی جو مسلمان تاجروں کی ایک جماعت کے ساتھ شام سے واپس آرہے تھے، زبیر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت سفید کپڑے پہنائے تھے۔ [1]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات بُریدہ بن حصیب رضی اللہ عنہ سے:
اِسی ہجرتِ مدینہ کے سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات بُریدہ بن حصیب رضی اللہ عنہ سے اُن کے قبیلہ بنی سہم کے ستر سواروں کے ساتھ ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تم کون ہو؟ کہا: بُریدہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہا: اے ابوبکر! ہمارا معاملہ ٹھنڈا اور مناسب ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر پوچھا: تم کس خاندان کے ہو؟ کہا: خاندانِ اسلم کا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بکر رضی اللہ عنہ سے کہا: ہم محفوظ ہوگئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر پوچھا: تم کس قبیلہ سے ہو؟ کہا: بنی سہم کا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: اے ابو بکر ! آپ کی خوش بختی کا تیر نکلا ہے۔ تب بُریدہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا: آپ کون ہیں ؟ کہا: میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )بن عبداللہ، اللہ کا رسول ہوں۔ بُریدہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )اللہ کے رسول ہیں۔
چنانچہ بریدہ رضی اللہ عنہ اور وہ تمام لوگ اسلام لے آئے جو ان کے ساتھ تھے ، وہ تقریباً اسّی(80) گھرانوں کے لوگ تھے، آپ نے اُس وقت عشاء کی نماز پڑھی اور اُن تمام لوگوں نے آپ کے پیچھے نماز پڑھی۔ جب صبح ہوئی تو بُریدہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: آپ مدینہ میں اس حال میں داخل ہوں کہ آپ کے ساتھ جھنڈا ہو، پھر بُریدہ رضی اللہ عنہ نے اپنا عمامہ کھول کر اپنے نیزے کے اوپر باندھ لیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے چلنے لگے۔ پھر پوچھا: اے اللہ کے نبی! کیا آپ میرے مہمان بنیں گے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میری یہ اونٹنی اللہ کی مامور ہے، بُریدہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کا شکر ہے کہ بنو سہم والے تمام کے تمام برضا ورغبت
|