Maktaba Wahhabi

568 - 704
غزوہ فتحِ مکہ (فتحِ اَعظم) مکہ کو بُتوں سے پاک کرنے کی گھڑی آگئی: ابراہیم علیہ السلام نے اپنے رب کے حکم سے خانۂ کعبہ کی تعمیر کی تاکہ وہ اللہ کا گھر ہو، اور لوگ دنیا کے گوشہ گوشہ سے اس کی زیارت کے لیے آئیں، اُس کا طواف کریں اور حج کریں، جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام نے اس دور کے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی وحی کے مطابق ان باتوں کی تعلیم دی۔ اس لیے بعثتِ نبوی کے بعد اس گھر کو اُن بتوں سے پاک کرنا غایت درجہ ضروری تھا جنہیں قریشیوں نے اُس کے گرد رکھ دیا تھا، اور اس کام کے لیے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مکہ لوٹ کر آنا ضروری تھا، تاکہ وہ سرزمینِ مکہ پر توحید کی بنیادوں کو راسخ کریں۔ چنانچہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بُت پرستی اور اس کے اثرات، اور یہودیت اور اس کی سازشوں سے مدینہ اور اس کے گرد ونواح کو پاک کرنے سے فارغ ہو چکے، اور مکہ سے باہر کے علاقوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید کی بنیادوں کو مضبوط کر دیا، تو اب وقت آچکا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب کے حکم سے مکہ پر توجہ دیتے تاکہ اسے بُتوں سے یکسر پاک کر دیتے، اور اُس کی قدیم طہارت وپاکیزگی عود کر آتی، اور اللہ کا گھر موحد مسلمانوں کی زیارت کے لیے تیار ہو جاتا جو مدت سے وہاں آنے اور بیت اللہ کا طواف کرنے کی تمنا دل میں لیے زندگی گزار رہے تھے۔ اور چونکہ قریش کے باقی ماندہ لوگ اب تک انکارِ حق اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف برسرِ پیکار ہونے کے لیے اصرار کر رہے تھے، اس لیے ضروری تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مہاجرین وانصار صحابہ کرام کے ساتھ بحیثیت فاتح مکہ مکرمہ میں داخل ہوں۔ فتحِ مکہ فتحِ اعظم تھا: امام ابن القیم رحمہ اللہ نے فتحِ مکہ کو فتحِ اعظم قرار دیا ہے، اور لکھا ہے کہ یہی وہ فتح تھی جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دین ورسول اور لشکرِ اسلام کو عزت بخشی، اور اپنے بلدِ حرام کو کفار ومشرکین کے قبضہ سے نجات دی۔ یہی وہ فتح تھی جس کی خوشی آسمان والوں نے بھی منائی، اور جس کے بعد لوگ جُوق در جُوق اللہ کے دین میں داخل ہوئے، اور اللہ کی سر زمین نور وضیاء اور فرحت وشادمانی سے بھر گئی۔ اسی فتح مبین کے حصول کے لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم لشکرِ اسلام لے کر نکلے، اور دیکھتے ہی دیکھتے سر زمینِ مکہ کی کایا پلٹ گئی۔ [1] فتح کے لیے تائیدِ غیبی: صلحِ حدیبیہ کی تفصیلات میں یہ بات آچکی ہے کہ صلح کی ایک اہم شرط یہ تھی کہ دس سال تک جنگ قطعی طور پر بند رہے گی، تاکہ لوگ اِس مدت میں امن وچین کی زندگی گزار سکیں، اور ایک بات اِس عہد نامہ میں یہ تھی کہ جو کوئی محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے
Flag Counter