Maktaba Wahhabi

605 - 704
ہوئی بات لوگوں سے کہی۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو میرے اور بنی عبدالمطلب کے پاس ہے، انہیں اللہ کو اور تمہیں دیتا ہوں، یہ سن کر قریش نے کہا: اور جو ہمارے پاس ہے وہ بھی اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہے۔ اور انصار نے کہا: اور جو ہمارے پاس ہے وہ سب بھی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہیں۔ اَقرع بن حابس نے کہا: لیکن میں اور بنی تمیم اس کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اسی طرح عباس بن مِرداس نے کہا: میں اور بنو سلیم بھی اس کے لیے تیار نہیں ہیں۔ بنو سلیم نے کہا: نہیں، بلکہ جو ہمارا حصہ ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہے۔ عُیینہ بن حِصن نے کہا: میں اور بنو فزارہ بھی اپنا حصہ دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سب کچھ سُن کر کہا: یہ لوگ مسلمان ہو کر آئے ہیں، اور مجھے اِن لوگوں کا انتظار تھا۔ میں نے انہیں ان کی عورتوں، بچوں اور مال واَسباب کے درمیان اختیار دیا تھا، تو انہوں نے اپنے اہل وعیال کے مقابلہ میں کسی چیز کو کوئی حیثیت نہیں دی ہے۔ اس لیے جن لوگوں کے پاس اِن کے اہل وعیال میں سے کوئی ہو، اور وہ بطیبِ خاطر انہیں واپس کر دینا چاہیں، تو یہ اچھی بات ہوگی، اور جو کوئی انکار کرتا ہے، وہ بھی ان کو واپس کر دے، اور یہ ہم پر قرض ہوگا۔ ہم پہلی فرصت میں اس کا قرض چکا دیں گے۔ سب نے کہا: ہم اس پر راضی ہیں، چنانچہ سب نے واپس کر دیا، سوائے عُیینہ بن حِصن کے، اس نے اس کے پاس موجود ایک بوڑھی عورت کو واپس کرنے سے پہلے انکار کردیا، پھر اس نے بھی اُسے واپس کر دیا۔ [1] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہوازن والوں کے اسلام لانے سے خوش ہوئے، اور ان کے قائد مالک بن عوف نصری کے بارے میں دریافت کیا تو لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ وہ ثقیف والوں کے ساتھ طائف میں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سے وعدہ کیا کہ اگر وہ مسلمان ہو جائے گا تو آپ اس کے بال بچے اور اموال اسے واپس کر دیں گے، اور مزید سو اونٹ دے کر اس کا اکرام کریں گے۔ یہ سن کر وہ جلد ہی مسلمان ہوگیا اور جعرانہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے آکر ملا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے کیا گیا اپنا وعدہ وفا کیا، اور وہ مخلص مسلمان ہوگیا۔ بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اس کی قوم اور مضافات کے بعض دیگر قبائل کا ذمہ دار بنا دیا۔ [2] جعرانہ میں قیام اور ادائیگیٔ عمرہ: رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جعرانہ میں تیرہ دن قیام فرمایا، اور 18/ذو القعدہ بُدھ کی رات میں چند صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے ساتھ عمرہ کا احرام باندھ کر مکہ گئے۔ اضطباع (دائیں کندھے کو کھول کر چادر کو بغل کے نیچے سے نکالنا) کے ساتھ طواف کیا، تین ابتدائی اَشواط میں رمل کیا (تیز دوڑے) اور باقی چار اَشواط میں چلتے رہے، پھر صفا مروہ کے درمیان سعی کی، اور بال منڈوائے، معاویہ رضی اللہ عنہ نے آپؐ کے بال مونڈے، پھر رات میں ہی جعرانہ واپس آگئے، اور وہاں باقی رات گزار کر صبح کی۔ اسی لیے آپؐ کا یہ عمرہ بہت سے لوگوں سے مخفی رہا، انہی میں سے ابن عمر رضی اللہ عنہ تھے جیسا کہ اُن کے آزاد کردہ غلام نافع نے ان سے روایت کی ہے۔ امام بخاری نے نافع رحمہ اللہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جعرانہ سے عمرہ نہیں کیا۔ اگر
Flag Counter