Maktaba Wahhabi

645 - 704
عرب وفود کی آمد مدینہ میں فتحِ مکہ کی تفصیلات کے آخر میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ عرب قبائل کو مسلمانوں اور قریش کے درمیان فتح وشکست کا انتظار تھا، وہ اپنے قبولِ اسلام کے لیے فتحِ مکہ کے منتظر تھے، اس لیے کہ اُن کا عقیدہ تھا کہ مکہ پر اسی کا غلبہ ہوگا جو حق پر ہوگا، چنانچہ جب مکہ فتح ہوگیا اور قریشیوں نے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیادت کو تسلیم کر لیا تو اُن تمام عرب قبائل نے اسلام کا اعلان کر دیا جو اب تک شرک پر اڑے ہوئے تھے۔ جب ثقیف وہوازن والے اسلام لے آئے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تبوک سے فائز المرام واپس آگئے تو تمام دشمنانِ اسلام کے دلوں میں رُعب داخل ہوگیا، بالخصوص وہ عرب قبائل جنہوں نے اب تک اسلام کا کلمہ نہیں پڑھا تھا۔ چنانچہ غزوه تبوک کے بعد ایسے تمام ہی قبائل نے مدینہ منورہ کا رُخ کیا، اور اللہ کے دین میں جُوق در جُوق داخل ہونے لگے۔ یہ قبائل نو اور دس ہجری میں مسلسل آتے رہے اور اسلام کا اعلان کرتے رہے۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ اسلامی فوج کی تعداد فتحِ مکہ کے وقت دس ہزار تھی، اور غزوه تبوک میں اُن کی تعداد تیس ہزار ہوگئی، اور مسلمانوں کی تعداد اتنی تیزی سے بڑھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حجۃ الوداع میں شرکت کرنے والوں کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہو گئی۔ ابن سعد نے کتاب الطبقات میں اور ابن اسحاق نے اپنی سیرت کی کتاب میں فتح مکہ سے قبل اور بعد کے وفود کی تعداد ستر (70) سے زائد بتائی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان وفود سے بڑی گرم جوشی اور محبت کے ساتھ ملتے تھے، اسی لیے وہ لوگ بہت جلد اپنے اسلام اور وفاداری کا اعلان کر دیتے تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح اسلامی عقیدہ اور دینِ اسلام کی باتیں سیکھتے تھے، پھر اپنی بستیوں اور شہروں کی طرف لوٹ جاتے تھے، اور اپنے خویش واقارب کو دین کی وہ تعلیم دیتے تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھ کر جاتے تھے۔ اس لیے ان وفود کی مدینہ منورہ آمد اللہ تعالیٰ کی مشیت کے بعد سب سے بڑی وجہ تھی کہ دینِ اسلام نہایت تیزی کے ساتھ جزیره عرب کے چپہ چپہ میں پھیل گیا۔ذیل میں ان وفود کے مختصر حالات قلم بند کیے جا رہے ہیں: 1۔ وفدِ بنی تمیم: بنو تمیم کا ایک بڑا وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا جس میں اُن کے مشہور سرداران شامل تھے، انہی میں سے اقرع بن حابس، زبرقان بن بدر، عمرو بن اَہتم، حثاث بن یزید، نعیم بن یزید، قیس بن حارث اور قیس بن عاصم تھے۔ اِن کے خطیب اور شاعر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطیب اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شاعر حسّان رضی اللہ عنہ بن ثابت کے درمیان تقریری اور شعری مقابلے ہوئے، اور اقرع بن حابس نے کہا: محمدؐ کا خطیب ہمارے خطیب سے بڑا خطیب اور ان کا شاعر ہمارے شاعر سے بڑا شاعر ہے، اور ان کی آوازیں ہماری آوازوں سے زیادہ اونچی ہیں۔ پھر سب کے سب مسلمان ہوگئے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو عمدہ تحائف اور انعامات دیے۔ [1]
Flag Counter