Maktaba Wahhabi

165 - 704
رہا، اور جب وہاں سے نیچے اُترا‘‘ انتہائے حدیث تک۔ اس دلیل کو حدیث کی دوسری روایت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے تقویت ملتی ہے کہ ’’میں نے آسمان وزمین کے درمیان کرسی پر بیٹھے اسی فرشتے کو دیکھا جو میرے پاس غارِ حرا میں آیا تھا‘‘، اس میں صراحت ہے کہ اس بار جبریل علیہ السلام آپ کے پاس غارِ حرا کے باہر آئے تھے، اور اسی موقع سے سورۃ المدثر کی ابتدائی آیتیں آپ پر نازل ہوئیں۔ اور سورۂ ’’اقرأ‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر غارِ حرا میں اُس وقت نازل ہوئی، جب جبریل علیہ السلام آپ کے پاس پہلی بار آئے، جیساکہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہ سے مروی بخاری ومسلم کی روایت میں آیا ہے:’’یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حق آیا جب آپ غارِ حرا میں تھے۔‘‘ اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا، یعنی تیسری بار مجھے بھینچنے کے بعد، پھر جبریل علیہ السلام نے کہا: ((اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ ﴿1﴾ خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ ﴿2﴾ اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ ﴿3﴾ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ﴿4﴾ عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ)) [العلق:1-5] ’’اے پیغمبر! آپ پڑھئے، اپنے رب کے نام سے جس نے (ہرچیز کو) پیدا کیا ہے، اس نے انسان کو منجمد خون سے پیدا کیاہے، پڑھئے، اور آپ کا رب بے پایاں کرم والا ہے، جس نے قلم کے ذریعہ علم دیا، اس نے آدمی کو وہ کچھ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا ۔‘‘ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلی وحی کے ذریعہ نبی بناکر مبعوث کیے گئے، اور دوسری وحی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو دنیا والوں کے پاس رسول بناکر بھیجا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ایک باطل تہمت کی تردید: سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کی روایت کے درمیان بہت دنوں سے امام زہری رحمۃ اللہ علیہ کی طرف منسوب ایک قول کو پڑھا کرتا تھا کہ کچھ دنوں کے لیے جب وحی کا آنا بند ہوگیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت زیادہ غمگین ہوئے، یہاں تک کہ کئی بار آپ نے سوچا کہ کسی بلند پہاڑی سے نیچے چھلانگ لگاکر ہلاک ہوجائیں، لیکن جب بھی کسی پہاڑ کی چوٹی پر پہنچتے تو جبریل علیہ السلام سامنے آکر کہتے: اے محمد! آپ اللہ کے سچے رسول ہیں، تو آپ کے دل کو اطمینان ہوجاتا، اور واپس گھر لوٹ آتے… الحدیث۔ اسی طرح کی ایک روایت طبری نے اپنی تاریخ (2/207) میں بیان کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں یقینا ایک پہاڑ کی چوٹی سے اپنے آپ کو نیچے گرا دوں گا اور خود کشی کرلوں گا، تاکہ مجھے آرام آجائے۔ چنانچہ میں ایک دن اس ارادے سے نکلا اور جب پہاڑ کے بیچ میں پہنچا تو آسمان سے ایک آواز سُنی:’’اے محمد! آپ اللہ کے رسول ہیں، اور میں جبریل ہوں ۔‘‘ میں اس قصے کو جب بھی پڑھتا، اور اس میں ظلم وبہتان تراشی کی بنیاد پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جو یہ منسوب کیا گیا ہے کہ آپ نے کئی بار پہاڑ کے اُوپر سے چھلانگ لگاکر خود کشی کرلینی چاہی، تو میری عقل اسے کبھی قبول نہیں کرتی تھی،اس لیے کہ اس طرح کا بیمار رجحان کسی عقل کے مریض آدمی میں ہی پایا جاسکتا ہے۔ عقل مند، سنجیدہ اور دور اندیش آدمی تو عقلمندی کے ساتھ مشکل حالات کا مقابلہ کرتا ہے ، یہاں تک کہ اُن پر غالب آجاتا ہے، اس طرح کا بیمار رجحان تو اس بات کی دلیل ہوتی
Flag Counter