Maktaba Wahhabi

215 - 704
جب قریش کو یقین ہوگیا کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف حسد وکینہ سے بھری اپنی ناپاک خواہشات کو مکہ کے باہر پوری نہیں کرسکتے، تو اُن کے بغض وعداوت کی آگ اور بھڑک اُٹھی، اور طے کرلیا کہ مکہ میں موجود اُن کمزور مسلمانوں پر ظلم وستم کو تیز تر کردیں گے، اور دعوتِ اسلامیہ کے شجر مبارک کو ہی مکہ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔ اور گزشتہ صفحات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کی اُن کی مسلسل سازشوں کے بارے میں لکھ چکا ہوں ، اور یہ کہ اللہ عزّوجلّ نے آپ کی حفاظت فرمائی اور ان کی تمام سازشوں کو ناکام بنا دیا۔ اور جب انہوں نے دیکھ لیا کہ دعوتِ اسلامیہ کے گرد گھیرا ڈالنے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کی اُ ن کی ہر سازش اللہ کی طرف سے ناکام بنا ئی جا رہی ہے ، بلکہ ہر نئے دن کا آفتاب دعوتِ اسلامیہ کو تیزی کے ساتھ پھیلتے دیکھ رہا ہے ، تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ سب مل کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، آپؐ کے چچا ابوطالب، آپؐ کی بیوی خدیجہ رضی اللہ عنھا ، دیگر اہل اسلام اور بنی ہاشم و بنی مطلب سے سماجی بائیکاٹ کریں گے جس کی تفصیل آگے آئے گی۔ سیّدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ہجرتِ حبشہ کا ارادہ کیا: اُن شدید اَیام میں سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ اہلِ مکہ جس استہزاء، ایذاء رسانی اور تذلیل واہانت کا معاملہ کررہے تھے، اس سے غایت درجہ تنگ اور دل برداشتہ ہوکر، انہو ں نے سابق مہاجرینِ حبشہ کی طرح ہجرت کرکے حبشہ جانے کا فیصلہ کرلیا، تاکہ انہیں کچھ سکون میسّر آسکے، اور آزادی کے ساتھ وہاں اپنے رب کی عبادت کرسکیں، یہ بات سن 6 نبوی یا اس کے بعد والے سال کے ابتدائی دنوں کی ہے۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کہتی ہیں : جب سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ پر مکہ کی زمین تنگ ہوگئی، اہلِ قریش کی ایذاء رسانیاں بڑھتی گئیں، اور دیکھا کہ دن بدن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب کے خلاف قریشیوں کی عداوت تیز تر ہوتی جارہی ہے، تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہجرتِ حبشہ کی اجازت لی، اور نکل پڑے۔ جب مکہ سے ایک یا دو دن کا راستہ طے کرلیا، تو اچانک اُن کی ملاقات ابن الدُغُنّہ سے ہوئی، جس نے اُن سے پوچھا کہ کہاں کا ارادہ ہے ؟ انہو ں نے کہا کہ میری قوم نے مجھے نکال دیا ہے ، مجھے اذیت پہنچائی ہے، اور عرصۂ حیات تنگ کردیاہے۔ ابن الدغُنّہ نے کہا: لوٹ چلیے، آپ میری پناہ میں آگئے ۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ اس کے ساتھ مکہ واپس آگئے۔ وہاں پہنچنے کے بعد ابن الدُغنّہ نے قریشیوں سے کہا: می ں نے ابن ابی قحافہ کو پناہ دے دی ہے۔ اس کے بعد کفارِ قریش نے انہیں تکلیف پہنچانا بند کردیا، اور وہ اپنے گھر میں اپنے رب کی عبادت کرنے لگے،پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ایک بات سمجھ میں آئی اور انہوں نے اپنے گھر کے خارجی صحن میں ایک مسجد بنا لی اور اس میں نماز اور قرآن پڑھنے لگے۔ پھر ایسا ہوا کہ مشرکین کی عورتیں اور ان کے لڑکے انہیں دیکھ دیکھ کرتعجب کرتے تھے اور ان سے متأثر ہونے لگے ، اور سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ رقیق القلب آدمی تھے۔جب وہ قرآنِ کریم کی تلاوت کرتے توانہیں اپنی آنکھوں پر قابو نہیں رہتا تھا۔ ان مناظر نے زعمائے قریش کو ڈرا دیا ، اور ابن الدُغنّہ سے کہا: ہمیں ڈر ہوگیا ہے کہ کہیں ہماری عورتیں اور ہمارے لڑکے فتنہ میں نہ پڑ جائیں، اس لیے تم ابوبکر کو ایسا کرنے سے روکو۔ اور اگر وہ نہ رُکے تو ان سے کہو کہ وہ تمہارا عہد ذمہ داری تمہیں واپس کردے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو انہوں نے اس کا عہدِ ذمہ داری واپس کردیا، اور اللہ کے جوار میں رہنے پر راضی ہوگئے ۔ اور اس طرح مکہ میں رہ کر ہر قسم کی اذیتوں اور آزمائشوں کو جھیلتے رہے ، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت کرکے
Flag Counter