سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہماسے مروی امام بخاری رحمہ اللہ کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے دیکھا کہ جیسے ایک کالی عورت سر کے بال بکھیرے مدینہ سے نکل گئی، یہاں تک کہ وہ ایک کشادہ اور پھیلی ہوئی زمین میں جاکر رُک گئی اور وہ مقامِ جُحفہ ہے۔ میں نے اس کی تعبیر یہ نکالی کہ مدینہ کی وبا وہاں منتقل کردی گئی۔
دو عہدنامے:
ابن اسحاق کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین وانصار کے درمیان ایک دستاویز لکھی اور اس میں یہودِ مدینہ کے ساتھ صلح کے معاہدے کی بات بھی لکھی، اور انہیں اپنے دین پر برقرار رہنے اور اپنے مال ومتاع کے ساتھ مدینہ میں رہنے کی منظوری دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کچھ شرطیں اُن پر لگائیں اور اُن کی کچھ شرطوں کو قبول کیا۔
ابن اسحاق نے اس دستاویز کا نص ذکر کیا ہے جو بسم اللہ الرحمن الرحیم سے شروع ہوتا ہے، اس میں کچھ دفعات مسلمانوں کے ساتھ خاص ہیں، اور کچھ یہود کے ساتھ۔ اور محققین کے نزدیک راجح یہ ہے کہ یہ دستاویز دو عہد ناموں کا مجموعہ ہے جو دو وقتوں میں لکھے گئے، ایک کا تعلق یہود کے ساتھ مصالحت سے ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ تشریف لانے کے بعد جلد ہی لکھا گیا، اور دوسرے کاتعلق مہاجرین اور انصار کے آپس کے تعلقات، حقوق اور واجبات سے ہے جو غزوۂ بدر کے بعد لکھا گیا، لیکن مؤرخین نے ان دونوں کو یکجا کردیاہے، جیسا کہ ابن اسحاق نے کیا ہے۔
اور بعض لوگوں نے اس عہد نامہ کے تاریخی طور پر صحیح ہونے میں شبہ کا اظہار کیا ہے، لیکن راجح بات یہی ہے کہ یہ دو الگ الگ صحیح عہد نامے ہیں جنہیں ابو عبید القاسم بن سلاّم نے اپنی سند کے ذریعہ زہری رحمہ اللہ سے روایت کیا ہے، [1]جیسا کہ ابن زنجویہ نے کتاب الأموال میں ان دونوں عہد ناموں کو زہری کے واسطے سے ایک دستاویز میں ملاکر ذکر کیا ہے۔ [2] اور ابن سید الناس نے ذکر کیا ہے کہ حافظ امام ابن خیثمہ نے اس دستاویز کو اپنی تاریخ میں اپنی سند سے یوں ذکر کیا ہے کہ کثیر بن عبداللہ بن عمرو المزنی نے اپنے باپ، انہوں نے اپنے دادا سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین وانصار کے درمیان ایک دستاویز اسی قسم کی لکھوائی جیسا ابن اسحاق نے ذکر کیا ہے۔ [3]
ان تمام روایتوں کے درمیان، عبارتوں میں بعض تقدیم وتاخیر یا بعض کلمات میں اختلاف، یا بعض دفعات کے اضافے کے باوجود بہت حد تک مطابقت ہے، اور بالعموم مضمون ایک ہے۔
اس دستاویز کے صحیح ہونے کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ اس کی بہت سے دفعات احادیث کی کتابوں میں صحیح اور متصل سندوں سے مروی موجود ہیں، ان میں سے بعض کو امام بخاری، امام مسلم، امام احمد، ابو داؤد، ترمذی اور ابن ماجہ رحمہم اللہ نے اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے، نیز یہ کہ سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق اہم ترین کتابوں اور تاریخ اسلامی کے دیگر مصادر میں یہود کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مصالحت کا ذکر آیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اور یہود کے درمیان ایک دستاویز لکھوائی
|