بشر خزاعی جاسوسِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بشر بن سفیان بن عویمر خزاعی کو اپنے جاسوس کے طور پر پہلے ہی مکہ روانہ کردیا تھا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم عُسفان کے قریب مقام غدیر الأشطاط پر پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خزاعی جاسوس آیا اور خبر دی کہ کعب بن لؤی اور عامر بن لؤی نے مختلف الانواع لشکر کو آپ سے جنگ کرنے اور خانہ کعبہ کی زیارت سے روک دینے کے لیے جمع کرلیا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے مشورہ مانگا اور پوچھا کہ کیا جو لوگ وہاں جمع ہیں، ہم اُن کے اہل وعیال پر حملہ کرکے اُن کا صفایا کردیں، تاکہ وہ اپنی جگہ پر خائب وخاسر اور محزون ومغموم بن کر پڑے رہیں، یا جنگ کے لیے حرکت کریں تو اُن کی مثال کٹی ہوئی گردنوں کی ہو یا تم لوگ یہ مناسب سمجھتے ہو کہ ہم بیت اللہ کا قصد کرکے آگے بڑھیں، اور کوئی ہماری راہ روکے تو ہم اُس سے جنگ کریں؟
ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے نبی! اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، ہم لوگ عمرہ کے لیے آئے ہیں، ہمارا مقصد کسی سے جنگ کرنا نہیں ہے، لیکن اگر کوئی ہمیں بیت اللہ کی زیارت سے روکے گا تو ہم اس سے جنگ کریں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’پھر تم لوگ آرام سے رہو‘‘، [1] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام سے بہت زیادہ مشورے فرمایا کرتے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دخولِ مکہ سے روک دیا جانا:
قریشیوں کو جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی مکہ کے لیے روانگی کا علم ہوا تو وہ نہایت خوفزدہ ہوئے اور معاملہ پر بہ تمام وجوہ غور کرنے کے بعد اس بات پر متفق ہوئے کہ مسلمانوں کو مکہ میں داخل ہونے سے روک دیا جائے، چاہے جیسے بھی حالات کا سامنا کرنا پڑے، چنانچہ وہ اپنی پوری فوجی طاقت کے ساتھ مسلمانوں سے نمٹنے کے لیے تیار ہوگئے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب معلوم ہوا کہ اہل قریش نے مسلمانوں کو مکہ میں داخل ہونے سے روک دینے اور جنگ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہائے قریش کی بدنصیبی کہ جنگ انہیں کھاگئی۔ اگر یہ میرے اور لوگوں کے درمیان رکاوٹ نہ بنتے تو اِن کا کیا بگڑجاتا۔ اگر لوگ میرا قصہ تمام کردیتے تو اِن کا مقصد پورا ہوجاتا، اور اگر اللہ تعالیٰ مجھے لوگوں پر غلبہ اور برتری عطا کرتا تو یہ لوگ فوراً دائرۂ اسلام میں داخل ہوجاتے۔ اور اگر انہوں نے ایسا نہیں کیا، اور اپنی رہی سہی طاقت کے غرور میں مبتلا رہے، تو قریش والے کیا سمجھتے ہیں؟میں اُس کلمہ کو غالب کرنے کے لیے جس کے ساتھ اللہ نے مجھے بھیجا ہے، اُن سے جہاد کرتا رہوں گا،یہاں تک کہ اللہ کا دین مکہ میں غالب ہوجائے، یا اسی راہ میں میری موت آجائے۔
خالد بن ولید کا دستہ مسلمانوں کی راہ میں رُکاوٹ [2] :
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب عُسفان پہنچے جو مکہ کے شمال میں اسّی(80) کلو میٹر کی دوری پر ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ملی کہ
|