تمہارے دلوں کے لیے خوبصورت بنادی گئی، اور تم نے نہایت بُرا گمان کرلیا (کہ اللہ اپنے رسول کی مدد نہیں کرے گا) اور تم تھے ہی ہلاک ہونے والے لوگ۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سن 6 ہجری یکم ذی القعدہ بروز سوموار سفر پر روانہ ہوئے، اور مدینہ میں اپنا نائب ابن امّ مکتوم رضی اللہ عنہ کو مقرر کردیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جانے والے مسلمانوں کی تعداد کے بارے میں اختلاف ہے، کسی نے لکھا ہے کہ اُن کی تعداد تیرہ سو(1300) تھی، اور کسی نے چودہ سو (1400) کہا ہے، اور کسی نے پندرہ سو (1500) ، اور یہ سب روایتیں صحیحین میں ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے سب پر غور کرنے کے بعد لکھا ہے کہ اُن کی تعداد چودہ سو سے زائد تھی، اور امام نووی رحمہ اللہ نے اس رائے کی تائید کی ہے۔ علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے چودہ سو کی تعداد کو ترجیح دی ہے جو براء ابن عازب، معقل بن یسار اور سلمہ بن الأکوع رضی اللہ عنھم کی رائے ہے، سعید بن المسیب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے والد مسیب رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ درخت کے نیچے ہماری تعداد چودہ سو (1400) تھی، [1] سفر سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ ایسے کام کیے جن سے مقصود لوگوں کو یہ باور کرانا تھا کہ اس سفر کا مقصد عمرہ ادا کرنا اور مسجد حرام کی زیارت ہے، چنانچہ آپؐ نے اپنی قصواء نامی اونٹنی پر سوار ہوکر اپنے دروازہ کے پاس سے ماہِ ذی القعدہ میں سفر کا آغاز کیا، اور اپنے ساتھ ہَدِیْ کے جانور لے لیے جنہیں قلادے پہنا دیے، اور میانوں میں بند تلواروں کے سوا کوئی دوسرا سامانِ جنگ نہیں لیا۔
ذو الحلیفہ سے عمرہ کا احرام:
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحلیفہ پہنچے جو مدینہ سے چھ میل کی دوری پر ہے، تو ظہر کی نماز پڑھی، اور عمرہ کا احرام باندھا، اور مسلمانوں نے بھی آپؐ کے ساتھ احرام باندھا، اور اپنے ساتھ ہدی کے جانور لے لیے، انہوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی طرح عمل کیا، اور سب کے سب مکہ کی طرف حالتِ احرام میں لبیک کہتے ہوئے روانہ ہوگئے۔
ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کی ساحلِ سمندر کی طرف خبر گیری کے لیے روانگی:
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام مقامِ ’’ روحاء ‘‘ پر پہنچے جو مدینہ سے تہتر (73) کلو میٹر کی دوری پر ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ کو (جنہوں نے عمرہ کا احرام نہیں باندھا تھا) صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ ساحلِ بحر احمر پر واقع غیقہ نامی مقام کی طرف روانہ کیا، آپ کو خبر ملی تھی کہ وہاں کچھ مشرکین ہیں جن کی طرف سے ڈر ہے کہ کہیں وہ اچانک مسلمانوں پر حملہ نہ کردیں۔ اُس سفر میں ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے اپنے محرم ساتھیوں کے لیے ایک جنگی گدھے کا شکار کیا، جس کا گوشت سب نے کھایا، لیکن پھر انہیں اُس کے حلال ہونے میں شبہ ہوگیا، اس لیے جب اُن کی ملاقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مقام سُقیا پر ہوئی جو مدینہ سے ایک سو اسی (180) کلو میٹر کی دوری پر ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، اور آپؐ نے محرم صحابہ کو اس کا گوشت کھانے کی اجازت دے دی، اس لیے کہ انہوں نے اس کا شکار کرنے میں ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کی مدد نہیں کی تھی۔ [2]
|