اَبوصیفی اور نضلہ۔ عبد المطلب کے دس لڑکے ہوئے؛ عباس، حمزہ، عبداللہ، ابو طالب، زبیر، حارث، حِجل، مُقَوِّم، ضرار اور اَبولہب۔[1]
قُصَیّ بن کلاب قرشی:
قبیلۂ خزاعہ سیلِ عَرم کے بعد مکہ مکرمہ آگیا، اور مضافات میں سکونت پذیر ہوگیا، پھر اس نے مُرورِ زمانہ کے ساتھ جُرہمیوں پر غلبہ حاصل کر لیا، اور اپنے سردار عمرو بن لُحَیّ کی قیادت میں انہیں مکہ سے نکال باہر بھگایا۔ اِسی عمرو بن لُحیّ نے دینِ ابراہیمی کو سب سے پہلے بدلا اور بُت پرستی کو رواج دیا۔
اِس کے بعد بیت اللہ کی دیکھ بھال قبیلۂ خزاعہ والے ہی کرتے رہے۔ البتہ عرفہ سے لوگوں کو روانگی کا حکم دینا،اور قربانی کی صبح انہیں مزدلفہ سے منیٰ چلنے کا اشارہ دینا،[2] یہ دونوں اعزاز قبیلۂ مضر کے لیے ہی مختص رہے جو مکہ کے باہر رہتا تھا۔
ایک طویل مدت کے بعد قُصَیّ بن کلاب بن مُرّہ ایک خطرناک جنگ لڑکر جس میں دونوں فریقوں کے بہت سے لوگ مارے گئے، اور بہت سے زخمی ہوئے، خزاعہ سے بیت اللہ کی ولایت اور مکہ کی سیادت چھیننے میں کامیاب ہوا۔ قریشیوں کو اکٹھا کرنے اور مکہ میں حسب مراتب ان کو ترتیب دینے میں قُصَی نے ہی اہم ترین کردار ادا کیا۔
اس کے بعد قُصَّی خانۂ کعبہ کی پاسبانی، حاجیوں کی میزبانی، انہیں پانی پلانا، اور عَلَم برداری وغیرہ کا ذمہ داربن گیا،اور لوگ قُصَیّ کوقرشی کہنے لگے، اس سے پہلے کسی کو ’’قُرشی‘‘ نہیں کہا جاتا تھا، اور اس کی قوم نے اس کی اطاعت قبول کرلی۔
اِسی نے خانۂ کعبہ سے شام کے رُخ پر مسجد حرام سے متصل دار الندوہ بنایا، جو ایک بڑا کشادہ مکان تھا، قریش والے اُسی میں اپنے عام معاملات انجام دیتے تھے۔ اس گھر کی اہم خصوصیت یہ تھی کہ قریشی اس میں آپس میں مشورے کیا کرتے تھے، یہیں سرداران قریش جمع ہوتے تھے۔ رائے دہی اور مشورہ کے لیے اِس میں قصی کے بیٹوں کے علاوہ صرف وہی داخل ہو سکتا تھا جس کی عمر چالیس سال سے تجاوز کر گئی ہو۔ قریش والے کسی سے جنگ کرنے کے لیے یہیں اپنا عَلم باندھتے تھے، اور یہیں سے اس کے تجارتی قافلے نکلتے تھے، اور واپس آنے کے بعد یہیں اپنا اسبابِ تجارت اُتارتے تھے۔
بنو نضر کا نام قریش:
مؤرخین کا خیال ہے کہ سب سے پہلے فہر بن مالک بن نضر کا لڑکا قریش کے نام سے مشہور ہوا۔ اور یہ نضر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گیارہواں دادا تھا۔اور قریش کا پہلا سردار قُصَیّ بن کلاب ہوا، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چوتھا دادا تھا، اس نے حلیل بن حبشیہ خزاعی کی لڑکی سے شادی کی، جس سے اس کے تینوں بیٹے عبد مناف، عبدالدار، اور عبد العُزّیٰ پیدا ہوئے۔ اُن دنوں خانۂ کعبہ کی ولایت حُلیل کے پاس تھی۔ اس نے مرنے سے پہلے خانۂ کعبہ کی ولایت کی وصیت قُصَیّ کے لیے کر دی، قُصَیّ نے اُس کی خوب خدمت اور دیکھ بھال کی، اُسی نے بنو نضر کو اکٹھا کیا، انہیں مرتّب کیا، اور خاندانی حیثیات ومراتب کے مطابق اُن سب کو داخلِ مکہ اور خارجِ مکہ رہائش دی۔ اسی لیے بنی نضر کی اولاد کو ’’قریش‘‘ کہا گیا، یعنی وہ لوگ جو ٹولیوں میں بٹے ہوئے
|