پڑھتا، اور منافقین نے کہا: محمد کو پتہ ہی نہیں کہ وہ اپنا رُخ کدھر کرے، اگر پہلا قبلہ حق تھا تو اسے اس نے چھوڑ دیا، اور اگر دوسرا حق ہے تو پہلے سے وہ باطل پر تھا، اس طرح بے وقوفوں کے قیل وقال کی کثرت ہوگئی، اور قبلہ کا موضوع اللہ کی طرف سے اس کے بہت سے بندوں کی آزمائش کا سبب بن گیا، تاکہ پتہ چلے کہ کون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتا ہے اور کون اُن کی مخالفت کرتا ہے ۔ [1]
رمضان کے روزے، صدقۂ فطر،عیدین کی نماز اور قربانی:
اسی 2 ھ ماہ شعبان میں اللہ تعالیٰ نے ماہِ رمضان کے روزے فرض کیے، اس سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر ماہ میں تین روزے رکھتے تھے۔ اور ابن سید الناس نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہما،ابن عمر رضی اللہ عنہما اور ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ رمضان کے روزے تبدیلیٔ قبلہ کے ایک ماہ بعد، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے اٹھارویں ماہ کی ابتدا میں شعبان میں فرض ہوئے، اور اللہ کے رسول نے اسی سال صدقۂ فطر کا حکم دیا۔ یہ حکم زکاۃ کی فرضیت سے پہلے صادر ہوا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کے دن خطبہ سے پہلے دو رکعت نماز پڑھی، اور قربانی کے دن بھی عید کی نماز پڑھی اورقربانی کا حکم دیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں دس سال تک رہے اور ہر سال قربانی کرتے رہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم عیدین کی نماز خطبہ سے پہلے بغیر اذان واقامت کے پڑھتے تھے۔[2]
فرضیت زکاۃ:
ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں: اور اسی 2 ھ میں بہت سے متأخرین علماء کے قول کے مطابق زکاۃ فرض کی گئی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
((خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا)) [التوبہ: 103]
’’ آپ ان کے اموال کی زکاۃ وصول کیجیے تاکہ اُن کو پاک کیجیے، اور اُس کے ذریعہ اُن کے باطن کا تزکیہ کیجیے۔ ‘‘
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زکاۃ کا وقت، اُس کی مقدار اور اس کا نصاب بیان فرمایا، اور یہ کہ زکاۃ کس پر واجب ہوتی ہے اور کسے دی جائے ؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار قسم کے مال میں زکاۃ فرض کی:
(1) کاشتکاری اور پھلوں کے باغات۔(2) جانور یعنی اونٹ، گائے اور بکری۔(3) وہ دونوں قیمتی جواہر جن پر دنیا اعتماد کرتی ہے یعنی سونا اور چاندی۔(4) مالِ تجارت( مختلف اقسام کے) اور اللہ نے اسے ہر سال ایک بار واجب کیا ہے اور کھیتوں کی پیداوار اور پھلوں کا سال اس کے تیار ہونے اور پک جانے کو بتایا۔
|