اناجوں کا نصف حصہ لے لیں گے۔ انس رضی اللہ عنہ کی والدہ ماجدہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھجور کا ایک درخت عطیہ کیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ درخت اپنی آزاد کردہ باندی اُمّ اَیمن کو دے دیا جو اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی بھی ماں تھیں۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب غزوئہ خیبر سے مدینہ واپس تشریف لائے، اور مہاجرین نے انصار کو اُن کے عطیات واپس کر دیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اُمّ انس رضی اللہ عنہما کو اُن کا درخت واپس کر دیا، اور اُمّ اَیمن کو اُس کے عوض اپنے باغ کا ایک درخت عطا کیا۔ [1]
اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت کی ہے، انہوں نے کہا کہ جب خیبر فتح ہوا تو ہم کہنے لگے: اب ہم پیٹ بھر کر کھجوریں کھائیں گے۔ [2]
معرکۂ خیبر میں شہدائے اسلام:
ابن اسحاق کی روایت کے مطابق مسلمان شہداء کی تعداد بیس تھی، چار مہاجرین اور سولہ انصار۔ اور واقدی نے لکھا ہے کہ ان کی تعداد پندرہ تھی، اور ان کے نام اور اُن جگہوں کے نام لکھے ہیں جہاں یہ صحابہ کرام شہید ہوئے تھے۔
واقدی نے یہ بھی لکھا ہے کہ یہود مقتولین کی تعداد ترانوے تھی، اور اُن کی عورتیں اور بچے قیدی بنا لیے گئے، اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کو ذلیل ورُسوا کیا کہ وہ اپنے مضبوط قلعوں سے دفاع کرتے ہوئے مسلمان شہداء سے کہیں زیادہ تعداد میں قتل ہوئے جبکہ مسلمان کھلے میدانوں میں تھے اور وہ لوگ بند قلعوں میں۔
یہودِ فَدَک:
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب خیبر کے لیے روانہ ہوئے تو مُحیّصہ بن مسعود کو ’’ فَدَک ‘‘ بھیجا جو خیبر کے شمال میں مدینہ سے دو دن کی مسافت پر واقع تھا، تاکہ وہ انہیں اسلام کی دعوت دیں اور جنگ کے نتائج سے ڈرائیں۔ محیّصہ وہاں دو دن رہے، اور یہود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فوج کا انتظار کرنے لگے اور کہنے لگے: ’’ ہم نہیں سمجھتے کہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہمارے علاقہ میں پہنچ سکے گا، خیبر میں دس ہزار یہودی فوجی موجود ہیں۔‘‘
وہ اسی گومگو میں رہے یہاں تک کہ ان کو قلعۂ ناعم میں پناہ گزینوں کے قتل کیے جانے کی خبر ملی تو ان کے اعصاب ڈھیلے پڑ گئے، اور بالآخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس شرط پر مصالحت کر لی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں قتل نہیں کریں گے بلکہ انہیں صرف جلا وطن کرنے پر اکتفا کریں گے، اور اُن کی جائدادیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زِیر تصرف ہو جائیں گی، شروطِ صلح کے مطابق یہ بات طے پائی کہ آدھی زمینیں اُن کی ہوں گی، اور آدھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی۔ فدک کی یہ زمینیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رہیں، اس لیے کہ یہ بغیر کسی جنگی کارروائی کے حاصل ہوئی تھیں۔
یہودِ وادیٔ قُریٰ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر سے واپسی کے وقت وادیٔ قریٰ کا ارادہ کیا جو خیبر اور تیماء کے درمیان چند بستیاں تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب صہباء پہنچے تو وہاں سے مضافاتِ مدینہ میں واقع ’’برمہ‘‘ کی طرف چل پڑے (جو خیبر اور وادیٔ قریٰ کے
|