اسلامی فوج نے دس ہزار آگ جلائی:
رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مر الظہران میں فَروکش ہوئے، تو عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ نے کہا: اب قریش کی خیر نہیں۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں بزورِ طاقت داخل ہوگئے تو قریشی یکسر ہلاک وبرباد ہو جائیں گے۔ چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سفید خچر پر سوار ہو کر مقامِ ’’اَراک‘‘ تک آئے، اور دل میں سوچا کہ شاید کوئی آدمی مل جائے جو مکہ والوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی اطلاع دے اور اُن سے کہے کہ وہ آکر آپؐ سے امن کی درخواست کریں قبل اس کے کہ آپؐ بزورِ طاقت مکہ میں داخل ہوں۔ وہ ابھی یہ بات سوچ ہی رہے تھے کہ انہوں نے ابو سفیان بن حرب اور بُدیل بن ورقاء کی آواز سنی۔ ابو سفیان کہہ رہا تھا: میں نے آج کی طرح کبھی نہ کوئی آگ دیکھی اور نہ فوج۔ اور بُدیل کہہ رہا تھا: اللہ کی قسم! یہ خزاعہ والوں کی آگ ہے، جنگ کی خواہش نے ان کے جذبات کو برانگیختہ کر دیا ہے۔ ابو سفیان نے کہا: اللہ کی قسم! خزاعہ والے ایسے ذلیل وقلیل ہیں کہ یہ اُن کی آگ اور فوج نہیں ہوسکتی۔ ابو سفیان، حکیم بن حزام اور بُدیل بن ورقاء کے ساتھ خبروں کی ٹوہ میں نکلا تھا۔ [1]
ابو سفیان بن حرب رضی اللہ عنہ کا اسلام:
عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے ابو سفیان کی آواز پہچان لی، اور کہا: اے ابو حنظلہ! کیا تم نے میری آواز پہچان لی؟ اس نے پوچھا: کیا یہ ابو الفضل ہیں؟ میں نے کہا: ہاں۔ اس نے پوچھا: کیا بات ہے، میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں؟ میں نے کہا: اللہ کی قسم! یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اپنے اصحاب کے ساتھ، قریشیوں کے لیے یہ صبح بُری ہے، ابوسفیان نے پوچھا: پھر کیا کرنا چاہیے، میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں؟ عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم کو پالیا تو تمہاری گردن اُڑا دی جائے گی، آؤ، اس خچر پر میرے پیچھے سوار ہو جاؤ۔ ابو سفیان سوار ہوگیا، اور اُس کے دونوں ساتھی (بُدیل اور حکیم) واپس چلے گئے۔ عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں انہیں لے کر چلا، اور جب جب کسی آگ کے پاس سے گزرتا، لوگ پوچھتے: یہ کیا ہے؟ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خچر پر آپ کے چچا عباس رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر کہتے: یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خچر ہے جس پر آپ کے چچا جا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ ہم عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی آگ کے پاس سے گزرے تو انہوں نے پوچھا: یہ کون ہے؟ اور میرے پاس آگئے، اور ابوسفیان کو پہچان کر کہنے لگے: یہ تو اللہ کا دشمن ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے آج تمہیں ہمارے پاس پہنچا دیا، اور تیزی کے ساتھ دوڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گئے، اور میں نے بھی خچر کو چابک لگایا، اور تیزی کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گیا، اُسی وقت عمر رضی اللہ عنہ بھی پہنچ گئے اور کہنے لگے: اللہ کا دشمن ابو سفیان ہمارے پاس بغیر کسی معاہده امن وصلح کے پہنچ گیا ہے، مجھے اجازت دیجیے کہ اس کی گردن مار دوں۔ میں نے فوراً کہا: یا رسول اللہ! میں نے اِسے پناہ دے دی ہے۔ پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھ گیا، آپ کا سر پکڑ لیا، اور بلند آواز سے کہا: اللہ کی قسم! آج کی رات میرے سوا کوئی آپؐ سے سرگوشی نہیں کرے گا۔ اور جب عمر رضی اللہ عنہ کا اصرار بڑھ گیا، تو میں نے کہا: اے عمر! اب بس کرو، اگر بنی عدی کا کوئی آدمی ہوتا تو آپ
|