یہ بات نہ کہتے، لیکن ابو سفیان بنی عبد مناف کا ہے (اسی لیے آپ اتنا اصرار کر رہے ہیں) عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے عباس! بلکہ آپ بس کیجیے، اور ایسا نہ کہئے، اللہ کی قسم! جب آپ اسلام لائے تو آپ کا اسلام میرے لیے خطاب کے اسلام لانے سے زیادہ محبوب تھا، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کا اسلام لانا خطاب کے اسلام لانے سے زیادہ پسند تھا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عباس! آپ اسے اپنے خیمہ میں لے جائیے، اور صبح ہونے کے بعد اسے ہمارے پاس لے آئیے۔ عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں اُسے اپنے خیمہ میں لے گیا، اور صبح ہوتے ہی اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آیا۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے دیکھا تو کہا: اے ابو سفیان! کیا اب بھی وہ گھڑی نہیں آئی کہ تمہیں یقین ہوجاتا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں؟ اُس نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، آپ کتنے بُردبار، کتنے کریم النفس، کیسی صلہ رحمی کرنے والے اور کیسے عظیم در گزر کرنے والے ہیں، عنقریب ہے میرے دل میں یہ بات بیٹھ جائے کہ اگر اللہ کے سوا کوئی دوسرا معبود ہوتا تو اب تک کبھی تو کام آیا ہوتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر کہا: اے ابوسفیان! کیا اب بھی تمہیں یقین نہیں آیا کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ اُس نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، آپ کتنے بُردبار، کتنے کریم النفس، کیسی صلہ رحمی کرنے والے اور کیسے عظیم در گزر کرنے والے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ اب تک اِس بارے میں میرا ذہن صاف نہیں ہوا ہے۔
عباس رضی اللہ عنہ نے فوراً کہا: تمہارا بھلا ہو، جلدی سے اسلام لاؤ اور کلمۂ شہادت پڑھو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اور محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے رسول ہیں، قبل اس کے کہ تمہاری گردن مار دی جائے۔ ابو سفیان نے فوراً کلمہ پڑھ لیا۔ تب عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! ابوسفیان فخر ومباہات کو پسند کرتا ہے، آپ اس کے لیے ایسی ہی بات کا اعلان کردیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں جو کوئی ابوسفیان کے گھر میں داخل ہو جائے گا وہ مامون ہوگا، اور جو کوئی اپنا دروازہ بند کر لے گا، وہ مامون ہوگا۔عباس رضی اللہ عنہ جب اسے لے کر مکہ کی طرف جانے لگے، تاکہ لوگوں کو اس بات کی خبر دیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اِسے وادی کی کسی تنگ جگہ پر روک رکھئے تاکہ اسلام کا لشکر اس کے سامنے سے گزرے۔
عباس رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کہنے کے مطابق اسے روک رکھا، اور قبائلِ مسلمین ایک ایک کرکے گزرتے رہے، جب ایک قبیلہ گزرا تو ابو سفیان نے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟ میں نے کہا: بنی سلیم۔ ابوسفیان نے کہا: میرا بنی سلیم سے کیا واسطہ۔ پھر دوسرا قبیلہ گزرا۔ اس نے پوچھا: یہ کون سا قبیلہ ہے؟ میں نے کہا: قبیلہ مُزینہ، اُس نے کہا: قبیلۂ مزینہ سے میرا کیا واسطہ۔ ابوسفیان اسی طرح بولتا رہا، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عظیم فوجی دستہ گزرا جو مہاجرین وانصار سے اُمڈ رہا تھا، تو اس نے کہا: اِن کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا۔ اللہ کی قسم! تمہارے بھتیجے کی بادشاہت اب بڑی عظیم ہو چکی ہے۔ عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: ابوسفیان! اللہ تمہیں سمجھ دے، یہ نبوت ہے۔ اُس نے کہا: ہاں، تب بات دوسری ہے۔ عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: جلدی کرو اور اپنی قوم کی نجات کا سوچو۔
عُروہ بن زبیر کی ایک مُرسل روایت میں آیا ہے: یہاں تک کہ ایک بے مثال فوجی دستہ گزرا، تو ابوسفیان نے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟ عباس نے کہا: یہ انصارِ مدینہ ہیں جن کی قیادت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کر رہے ہیں۔ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اے ابوسفیان! آج معرکہ کا دن ہے، آج کعبہ کو حلال کر دیا جائے گا۔ ابوسفیان نے کہا: اے عباس! آج اپنے خاندان والوں
|