حادثۂ إفک:
دوسرا حادثہ امّ المومنین عائشہ رضی اللہ عنہما پر بہتان تراشی کا ہے جو عبداللہ بن اُبی بن سلول کے نفاق اور خبثِ باطن کا نتیجہ تھا، اسی نے سب سے پہلے صدیقہ بنت الصدیق امّ المومنین عائشہ رضی اللہ عنہما پر بے بنیاد اور ظالمانہ بہتان تراشی کی او ران کی پاکدامنی کے داغدار ہونے کا دعویٰ کیا۔
مشرکین، یہود اور منافقین سب مل کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا پہنچانے کی جتنی سازشیں کرتے تھے، ان میں یہ حادثہ فاجعہ اپنی نوعیت کا منفرد حادثہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل ودماغ پر اس کا بہت ہی گہرا اثرپڑا اور منافقین کی خام خیالی کے مطابق یہ زخم ایسا تھا جس کا کوئی مداوا نہیں تھا، اس لیے کہ اس کا نشانہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور آپ کا شرف تھا جو دنیا میں کسی بھی شریف انسان کی عزیز ترین شے مانی جاتی ہے، اور اس کاری ضرب کا نشانہ خاتم النّبیین، اللہ کے محبوب ترین رسول اور سرزمین پر معزز ترین انسان تھے، اور اس کا خطرناک اور گھناؤنا مقصد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین وعقیدہ اور اس عظیم ترین مقصد کو نقصان پہنچانا تھا جس کی خاطر وہ دنیا میں مبعوث ہوئے تھے، ذیل میں اس نہایت تکلیف دہ واقعہ کو بیان کرتا ہوں جس نے مدینہ کی مسلم سوسائٹی کوہلاکر رکھ دیا تھا۔
ام المؤمنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہما روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی سفر کا ارادہ کرتے تو اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ اندازی کرتے اور جس کا نام نکلتا اسے اپنے ساتھ اس سفر میں لے جاتے۔
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک غزوہ کے موقع سے ہمارے درمیان قرعہ اندازی کی (مسند ابو یعلیٰ میں سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہما سے مروی (4/450) روایت میں مذکور ہے کہ وہ غزوۂ بنی المصطلق تھا) تو قرعہ میں میرا نام نکلا، ہم سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر پر روانہ ہوگئے، اور یہ واقعہ پردہ کا حکم نازل ہونے کے بعد کا ہے، میں دورانِ سفر اپنے ہودج کے ساتھ اُٹھاکر اونٹ پر بٹھا دی جاتی تھی، پورے سفر میں ایسا ہی ہوتا رہا، یہاں تک کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے غزوہ سے فارغ ہوکر واپس ہوئے اور ہم لوگ مدینہ کے قریب آگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات میں ہی چل دینے کا حکم دیا۔
عائشہ رضی اللہ عنہما کا ہار کھوجانا اور فوج سے پیچھے رہ جانا:
جب سفر کا حکم صادر ہوگیا تو میں اُٹھ کر چل پڑی یہاں تک کہ فوج سے آگے بڑھ گئی، اور قضائے حاجت سے فراغت کے بعد اونٹ کے کجاوے کے پاس لوٹ کر آئی تو اپنے گلے میں مجھے اپنا ہار نہیں ملا، وہ شاید ٹوٹ کر کہیں گرگیا تھا، میں فوراً واپس گئی اور اپنا ہار تلاش کرنے لگی اور اس کی تلاش میں مجھے دیر ہوگئی۔
جن صحابہ کے ذمہ میرے سفر کا اہتمام کرنا تھا، انہوں نے ہودج کو اٹھاکر اس اونٹ پر رکھ دیا جس میں میں سوار ہوتی تھی، وہ سمجھ رہے تھے کہ میں ہودج میں ہوں۔اس زمانے میں عورتیں ہلکی ہوتی تھیں، ان کے جسم پر گوشت اور چربی نہیں ہوتی تھی، اس لیے کہ انہیں قلیل مقدار میں کھانا ملتا تھا، اس لیے جن لوگوں نے ہودج اُٹھایا، انہیں میرے اس کے اندر نہ ہونے کا احساس نہ ہوا، میں ایک کم سن لڑکی تھی، پھر انہوں نے اونٹ کو اُٹھادیا، اور چل پڑے، فوج کی روانگی کے بعد مجھے اپنا ہار مل گیا تو اپنی جگہ واپس آئی، لیکن وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔
|