کیا: آپ عباد بن بشر کو حکم دیجیے کہ وہ اس منافق کو قتل کردے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: اے عمر! ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ لوگ بات بنانے لگیں گے کہ محمد اپنے ساتھیوں کو قتل کرتا ہے، پھر آپؐ نے وہاں سے کوچ کرنے کا حکم دے دیا۔
جب عبداللہ بن ابیّ کو خبر ہوئی کہ زید بن ارقم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے کہے کی خبر دے دی ہے، تو وہ فوراً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور اللہ کی قسم کھاکر کہنے لگا: اس نے جو بات آپ کو بتائی ہے میں نے نہیں کہی ہے۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے چل پڑے تو اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے، اُن سے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہیں اس بات کی خبر نہیں ہوئی ہے، جو تمہارے ساتھی نے کہی ہے، اُنہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! وہ کون آدمی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عبداللہ بن اُبی، انہوں نے پوچھا: اس نے کیا کہا ہے؟ آپ نے بتایا: اس کا یہ خیال ہے کہ مدینہ واپس پہنچنے کے بعد سب سے معزز آدمی وہاں سے سب سے ذلیل آدمی کو نکال دے گا۔ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! اگر آپ چاہیں گے تو اسے مدینہ سے نکال دیں گے، اللہ کی قسم! وہ ذلیل ہے، اور آپ معزز انسان ہیں، پھر انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ اس کے ساتھ نرم معاملہ کیجیے، اللہ کی قسم! آپ کو اللہ نے ہمارے پاس اس وقت بھیجاجب اس کی قوم اس کے لیے تاج بنارہی تھی، تاکہ سب مل کر اس کی تاج پوشی کریں، وہ سمجھ رہا ہے کہ آپ نے اس کی بادشاہت اس سے چھین لی ہے۔ [1]
زید رضی اللہ عنہ کی گذشتہ حدیث سنن ترمذی والی روایت میں ہے کہ اس کے بیٹے عبداللہ بن عبداللہ نے اس سے کہا: اللہ کی قسم تم بچ کر نہیں جاسکتے، یہاں تک کہ اقرار کرلو کہ تم ذلیل ہو، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معزز ہیں، چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا۔ [2]
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے روایت کی ہے کہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوہ میں تھے، لوگوں کا خیال ہے کہ وہ غزوہ بنی المصطلق تھا، تو ایک مہاجر نے ایک انصاری کو اپنے پاؤں سے ماردیا، انصار ی نے پکارا، اے انصار! اور مہاجرنے پکارا، اے مہاجرین! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات سن لی، اور فرمایا: کیا بات ہے کہ جاہلیت کا نعرہ لگایا جارہا ہے، صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! ایک مہاجر نے ایک انصاری کو پاؤں سے ماردیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ ایسا نعرہ لگانا بند کرو، یہ چیز تو نہایت ہی بدبودار اور سڑی ہوئی ہے۔ جب عبداللہ بن اُبی کو اس بات کی خبر ہوئی تو اس نے کہا: کیا مہاجرین نے ایسا کیا ہے ؟ اللہ کی قسم! ہم جب مدینہ واپس پہنچ جائیں گے تو وہاں کا سب سے معزز آدمی سب سے ذلیل انسان کو وہاں سے نکال دے گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر ہوگئی، عمر رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہوکر کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیجیے کہ اس منافق کی گردن اڑا دوں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسا نہ کرو، کہیں لوگ یہ نہ کہنے لگیں کہ محمدؐ اپنے ساتھیوں کو قتل کرتا ہے۔
انصار کی تعداد ابتدائے ہجرت کے وقت مہاجرین سے زیادہ تھی، پھر مہاجرین کی تعداد بڑھتی گئی۔ [3]
|