آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ کیا ہوتا تو یہ بات عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مخفی نہیں رہی ہوتی۔ اسی طرح امام مسلم نے نافع سے روایت کی ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک رسول اللہؐ کے جعرانہ سے عمرہ کرنے کا ذکر آیا تو انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں سے عمرہ نہیں کیا۔
لیکن جس بات کی ابن عمر رضی اللہ عنہ نے نفی کی ہے، دوسروں نے اس کا اثبات کیا ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول ان کی لا علمی پر محمول ہوگا، اس لیے کہ یہ بات ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جعرانہ سے عمرہ کیا تھا، اور اثبات نفی پر مقدم ہوتا ہے، اس لیے کہ اثبات میں زائد علم ہوتا ہے۔
امام احمد، شیخین، ابو داؤد اور ترمذی رحمہم اللہ نے اَنس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ حنین کے سال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مقامِ جعرانہ سے عمرہ کیا تھا۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار عمرے کیے، سبھی ذو القعدہ میں کیے، سوائے اس عمرہ کے جو حج کے ساتھ کیا تھا۔ پہلا عمرہ حدیبیہ سے ذو القعدہ میں، دوسرا اس کے بعد والے سال کے ذو القعدہ میں، تیسرا جعرانہ سے ذی القعدہ میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حنین کے غنائم تقسیم کیے، اور چوتھا حجۃ الوداع کے ساتھ ذو الحجہ میں۔ [1]
مدینہ واپسی:
جمعرات کے دن جب آفتاب ڈھل گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جعرانہ سے روانہ ہوئے، اور سَرَف پہنچے، وہاں سے مَرّالظہران کے راستہ پر چل پڑے، اور مدینہ جمعہ کے دن ستائیس ذو القعدہ کو پہنچے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں اپنا خلیفہ عَتّاب بن اُسَید رضی اللہ عنہ کو مقرر کر دیا تھا، اور اُن کے ساتھ معاذ بن جبل اور ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنھما کو رہنے دیا تاکہ یہ دونوں مکہ والوں کو قرآن پڑھنا سکھائیں اور قرآن وسنت کی تعلیم دیں۔
عُروہ بن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہ کا قبولِ اسلام:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جعرانہ سے روانگی کے بعد عُروہ بن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہ آپؐ سے ملنے کے لیے نکلے، اور مدینہ میں داخل ہونے سے پہلے راستہ میں آپؐ سے جا ملے اور اپنے اسلام کا اعلان کر دیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی قوم کے پاس لوٹ جانے کی اجازت مانگی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ لوگ تمہیں قتل کر دیں گے۔ بہر کیف وہ واپس اپنی قوم کے پاس گئے اور انہیں اسلام کی دعوت دینی شروع کی۔ لیکن ان لوگوں نے انہیں اپنے تیروں کا نشانہ بنایا اور انہیں قتل کردیا۔ مرنے سے پہلے انہوں نے وصیت کی کہ انہیں طائف سے باہر اُن مسلمانوں کے ساتھ دفن کیا جائے جو طائف کی ناکہ بندی کے وقت شہید ہوئے تھے، چنانچہ وہ شہداء کے ساتھ دفن کر دیے گئے۔ [2]
عرب جنگوں کا خاتمہ:
سیرتِ نبوی کے مؤرخین تقریباً اس بات پر متفق ہیں کہ غزوہ حنین کے ساتھ ہی جزیرہ عرب میں جنگوں کا خاتمہ ہوگیا، اللہ نے اس کے بعد مشرکین کے جتّھوں کو بکھیر دیا، اُن کی طاقت کو توڑ دیا، اور اسلام کے دشمنوں کو ذلیل ورسوا کرکے مسلمانوں
|