Maktaba Wahhabi

672 - 704
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری اور وفات بیماری کی ابتدا: محمد بن اسحاق لکھتے ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ماہِ ذی الحجہ میں حج سے فارغ ہونے کے بعد مدینہ لوٹ آئے، اور ذی الحجہ کے باقی اَیام اور ماہِ محرم وصفر میں مدینہ منورہ میں ہی رہائش پذیر رہے۔ اور اپنی زندگی کے آخری دنوں میں اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو فوج کشی کے لیے روانہ کیا۔ مسلمانانِ مدینہ انہی حالات سے گزر رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری شروع ہوگئی جس میں اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے جوارِ رحمت میں بُلالیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے پہلے ماہِ صفر کے چند دن باقی تھے، یا ماہِ ربیع الأول کے ابتدائی ایام تھے۔ جیسا کہ مجھے بتایا گیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات بقیع غرقد کے قبرستان میں گئے، مدفونین کے لیے دعائے مغفرت کی، پھر گھر واپس آگئے۔ اور صبح کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کی ابتدا ہوگئی۔ [1] آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بیماری 29/صفر سن 11 ہجری کو شروع ہوئی، تب سے گیارہ دن تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو بیماری کی حالت میں ہی نماز پڑھائی۔ بیماری کے ایام تیرہ یا چودہ دن تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخرت کی نعمتوں کو پسند فرمالیا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ کی طرف سے جو ذمہ داری ڈالی گئی تھی اُسے پورا کر لینے کے بعد ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر بیٹھے اور فرمایا: (جیسا کہ امام بخاری ومسلم رحمۃ اللہ علیہ نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے) اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بندہ کو اختیار دیا کہ یا تو اللہ اسے دنیا کی اُن نعمتوں سے نواز دے جو وہ چاہے، یا اللہ کے پاس جو ابدی نعمتیں ہیں انہیں وہ بندہ اختیار کر لے۔ تو اس بندہ نے اللہ کے پاس کی نعمتوں کو اختیار کر لیا ہے۔ یہ سن کر سیّدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ رونے لگے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگے: ہمارے باپ اور مائیں آپ پر فدا ہوں۔ ہم لوگوں کو تعجب ہوا، اور لوگ کہنے لگے: اِس بوڑھے کو دیکھو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بندہ کی خبر دے رہے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے دنیا اور آخرت کی نعمتوں کے درمیان اختیار دیا ہے، اور یہ کہہ رہا ہے: ہمارے باپ اور مائیں آپ پر فدا ہوں۔ بالآخر ہمیں معلوم ہوا کہ جنہیں اختیار دیا گیا تھا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ ہم میں سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے باخبر تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: لوگوں میں سب سے زیادہ مجھ پر صحبت ومال کے ذریعہ احسان ابوبکر کا ہے، اگر میں اپنی امت میں سے کسی کو اپنا خلیل بناتا تو ابو بکر کو بناتا، البتہ ان کے ساتھ میری اخوت اسلام کی بنیاد پر ہے۔ میری مسجد میں ابوبکر کے حُجرہ کے سوا کسی کا حُجرہ باقی نہ رہے۔ [2]
Flag Counter