Maktaba Wahhabi

671 - 704
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب سوموار کے دن بارہ ربیع الأول کو وفات پاگئے تو جو مسلمان جوف میں پڑاؤ ڈالے حالات کا انتظار کر رہے تھے، وہ مدینہ منورہ واپس آگئے۔ اور جب مسلمانوں نے سیّدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں پر بیعت کر لی، اور عربوں میں آپؐ کی وفات کی خبر پھیل گئی، اور کچھ لوگ مرتد ہوگئے، تو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اسامہ رضی اللہ عنہ سے کہا: تم اُس مہم کے لیے اب روانہ ہو جاؤ جس کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں امیر بنایا تھا، چنانچہ لوگ دوبارہ نکل کر جوف میں پہنچ گئے، لیکن کبارِ مہاجرین نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ فی الحال اہلِ روم سے جنگ کو مؤخر کر دیں، اس لیے کہ کوئی بعید بات نہیں کہ مسلمانوں کے دشمن اہلِ مدینہ پر حملہ کر دیں، اور بچوں اور عورتوں کو نقصان پہنچائیں۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اُن کی ایک نہ سنی اور لشکرِ اسامہ کی روانگی پر مُصر رہے اور کہا: اُس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر مجھے اِس کا گمان بھی ہو جاتا کہ درندے مدینہ میں داخل ہو کر مجھے کھا جائیں گے تب بھی میں اِس فوج کو ضرور بھیجتا۔ سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فوج کو روانہ کیا، اور اسامہ رضی اللہ عنہ کی اجازت سے عمر رضی اللہ عنہ کو اپنے پاس مدینہ منورہ میں رکھا۔ اور اسامہ رضی اللہ عنہ اور مجاہدینِ صحابہ کو رخصت کرنے کے لیے باہر نکلے اور ایک گھنٹہ تک اسامہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ چلتے رہے، پھر کہا: میں اللہ کے حوالے کرتا ہوں تمہارے دین کو، تمہاری امانت کو اور تمہارے آخری اعمالِ صالحہ کو۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا وہ تمہیں نصیحت فر مار ہے تھے۔ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو نافذ کرنے کے لیے روانہ ہو جاؤ، میں نہ تمہیں حکم دیتا ہوں اور نہ ہی روکتا ہوں، میں تو ایک ایسے حکم کو نافذ کر رہا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے صادر ہوا تھا۔ اسامہ رضی اللہ عنہ مقام اَبنیٰ پر پہنچے، وہاں کے لوگوں پر حملہ کر دیا، اور جو بھی اُن کے قریب ہوا اسے قتل کر دیا، اور اکثر کو قیدی بنا لیا، اور اُن کے گھروں، کھیتیوں اور کھجوروں کے باغات میں آگ لگا دی، اور اپنے گھوڑوں پر اُن کے میدانوں میں آزادانہ چلتے پھرتے رہے، پھر مدینہ منورہ واپس آگئے۔ اس فوجی کارروائی میں کوئی مسلمان مجاہد مارا نہیں گیا۔ اور ان کی واپسی کے وقت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور دیگر مسلمان اسامہ رضی اللہ عنہ اور ان کی فوج کے استقبال کے لیے مدینہ سے باہر نکل کر گئے اِس خوشی میں کہ اسامہ اور ان کے ساتھی مجاہدین بسلامت واپس آگئے ہیں۔ [1] اس جنگی کارروائی کے ذریعہ اسلامی فوج نے رومیوں کے دلوں میں رُعب بٹھا دیا اور اُن عربوں کا اعتماد بحال کر دیا جو اہلِ روم کے حدود پر رہتے تھے، اس لیے کہ رومیوں نے فروہ بن عمرو جذامی کو قتل کرکے مسلمانوں میں خوف وہراس پھیلادیا تھا، جو معان اور اس کے ارد گرد کے شامی علاقوں پر اہلِ روم کی جانب سے حاکم تھے، اور مسلمان ہوگئے تھے، تو رُومیوں نے انہیں پہلے جیل میں ڈال دیا، پھر قتل کرکے سولی پرچڑھا دیا تاکہ دوسرے عرب اُن کی پیروی کرتے ہوئے مسلمان نہ ہوں۔ اسامہ رضی اللہ عنہ کی فوج نے رُومی گِرجا کی ہیبت کا خاتمہ کر دیا اور اسلام ومسلمانوں کی ہیبت رومیوں کے دل ودماغ میں ہمیشہ کے لیے بٹھا دی۔ وباللہ التوفیق۔ ****
Flag Counter