Maktaba Wahhabi

538 - 704
بن مسلمہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد جنگ نہیں ہوئی، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر سے واپس چلے گئے۔ کتیبہ، وطیح اور سلالم نامی قلعوں کی فتح: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتیبہ، وطیح اور سلالم نام کے قلعوں کا رُخ کیا، سلالم، ابن ابی الحقیق کا قلعہ تھا، اور کچھ یہود جیسا کہ اوپر ذکر ہوا قموص نام کے قلعہ میں بند ہوگئے جو ایک مضبوط قلعہ تھا، اور کچھ یہود وطیح اور سلالم نام کے قلعوں میں بند ہوگئے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر منجنیق کے ذریعہ سنگ باری کرنی چاہی، لیکن جب یہودیوں کو چودہ دن تک محصور رہنے کے بعد اپنی ہلاکت کا یقین ہوگیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صلح کی بھیک مانگنے لگے۔ چنانچہ کنانہ بن ابی الحقیق نے شماخ نامی ایک یہودی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا، جس نے کنانہ کی طرف سے صلح کی درخواست پیش کی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موافق ہوگئے۔ کنانہ چند یہودیوں کے ساتھ قلعہ سے نکل کر آیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس شرط پر صلح کرلی کہ قلعہ میں باقی ماندہ مقاتلین کو قتل نہ کیا جائے، اور ان کے بال بچوں کو ان کے لیے چھوڑ دیا جائے۔ وہ لوگ خیبر سے اپنے بال بچوں کے ساتھ نکل جائیں گے، اور اپنے تمام اموال اور اراضی اور سونے اور چاندی، اور ہتھیار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے چھوڑ دیں گے، اُن کا ہر آدمی اپنے بدن پر موجود کپڑے کے ساتھ چلا جائے گا۔ اور اگر انہوں نے کوئی چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے چھپائی تو اللہ اور اس کے رسول ان سے اپنی براء ت کاا علان کرتے ہیں، اِن تمام شروط کو یہودیوں نے منظور کرلیا، اور اِن کے مطابق اُن کے ساتھ صلح ہوگئی، اور تمام قلعے مسلمانوں کے حوالے کردیے گئے اور خیبر کی فتح تمام ہوگئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ صحابہ کو بھیجا جنہوں نے فوراً ہی ان کے اموال، اسباب ومتاع اور ہتھیاروں پر قبضہ کرلیا۔ ایک سو زِرہیں، چار سو تلواریں، ایک ہزار نیزے اور پانچ سو عربی تیروکمان ہاتھ آئے۔[1] لیکن ان لوگوں نے ایک بڑی تجوری چھپالی جس میں حُیَيْ بن اخطب کا مال اور زیورات موجود تھے جسے وہ اپنے ساتھ بنونضیر کی جلاوطنی کے بعد خیبر لے گیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حُیَيْ کے چچا سعیہ سے پوچھا کہ حُیَيْ کی وہ تجوری کیا ہوئی جسے وہ اپنے ساتھ یہاں لایا تھا؟ اس نے کہا: اخراجات اور جنگی ضرورتوں میں خرچ ہوگئی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابھی کچھ دنوں پہلے کی بات ہے اور مال اس سے زیادہ تھا، جس کا تم صرفہ بتا رہے ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے زبیر رضی اللہ عنہ کے حوالے کیا، جنہوں نے اس کی پٹائی کی، تو اس نے بتایا کہ حُیَيْ کچھ دن پہلے ایک ویران جگہ میں تنہاگیا تھا، مسلمان وہاں گئے اور تلاش کیا تو ایک جھاڑی میں وہ تجوری مل گئی۔ ابو الحقیق کے خاندان والوں کا خزانہ مشہور تھا، وہ لوگ اپنے زیورات عربوں کو کرایہ پر دیتے تھے، اور چونکہ کنانہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صلح کرلی تھی، ا س لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے اُس خزانہ کے بارے میں پوچھا جو صلح کے شروط کے مطابق مسلمانوں کی چیز ہوگئی تھی، کنانہ اور اس کے بھائی ربیع نے جواب دیا کہ وہ خزانہ جنگی اخراجات پورے کرنے کے لیے بیچ دیا گیا، اور اس بات پر دونوں نے قسم کھالی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا کہ اگر وہ خزانہ تمہارے پاس پایا گیا تو اللہ اور ا س کے رسول تم دونوں سے بری ہوں گے۔ انہوں نے کہا: ہاں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور میں تم دونوں کا جو مال
Flag Counter