پوچھے کہ آپ کہاں جا رہے ہیں ؟ لیکن یقینا میری اس بات نے تمہارے دلوںکو حزن وملال سے بھر دیا ہے۔ میں تم سے کہتا ہوں کہ میرا چلا جانا ہی تمہارے لیے بہتر ہے، اس لیے کہ اگر میں نہ گیا تو ’’فارقلیط‘‘ نہیں آئیں گے، میں چلا جاؤں گا اور انہیں تمہارے پاس بھیج دوں گا۔
’’فارقلیط‘‘ کا عربی ترجمہ’’احمد ‘‘ ہے، جیسا کہ اصل کلمہ سے پتہ چلتا ہے۔ اسی بات کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کی زبانی قرآن کریم میں یوں بیان فرمایاہے:
{وَمُبَشِّرًا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْ بَعْدِی اسْمُہٗٓ اَحْمَدُ} [الصف:6]
’’اور ایک رسول کی خوشخبری دیتا ہوں جو میرے بعد آئے گا، اس کا نام احمد ہوگا۔‘‘ [1]
(ج)… جبل ِفارانِ مکہ سے خاتم النّبیین کا ظہور :
کتاب استثناء میں آیا ہے : اور وہ سینا سے آیا، اور اُن کے لیے ساعیر سے چمکا، اور جبلِ فاران سے آتا ہوا جلوہ افروز ہوا، اور اس کے ساتھ دس ہزار پاکباز لوگ آئے، اور اس کے دائیں ہاتھ سے اُن کے لیے شریعت کی آگ ظاہر ہوئی۔ [2]
اسرائیلیوں میں سے کسی کا بھی کوئی تعلق جبل ِفاران سے نہیں تھا، انہی میں مسیح بھی داخل ہیں ۔ ہاجر اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ بئرِ سبع کے علاقے میں گھومتی رہیں، بالآخر جبل ِفاران کے گرد چٹیل میدان میں سکونت پذیر ہوگئیں۔ او ریہ بات معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسماعیل علیہ السلام کی نسل سے تھے، اور وہی جبلِ فاران کے علاقے میں نبی بن کر ظاہر ہوئے، اور انہوں نے ہی مکہ کو فتح کیا، اور اس میں اپنے دس ہزار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ داخل ہوئے، اور وہی ناری شریعت لے کر اپنی قوم کے پاس آئے۔
(د)… عموریہ کے راہب نے سیّدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو نبی خاتم صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کی خبر دی:
ابن اسحاق رحمہ اللہ نے سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کا قصہ بیان کرتے ہوئے اُس آخری راہب کے بارے میں لکھا ہے جس کے پاس سلمان رضی اللہ عنہ عموریہ میں ٹھہرے تھے کہ ’’جب اس کی موت قریب ہوئی تو اس نے سیّدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے کہا: ایک نبی کے ظہور کا زمانہ قریب تر ہے ،وہ دینِ ابراہیم لے کر آئیں گے، سرزمینِ عرب میں ظاہر ہوں گے، اور ایک ایسی سرزمین کی طرف ہجرت کریں گے جو دو حَرّوں کے درمیان واقع ہے، اور اُن کے درمیان کھجوروں کے باغات ہیں ۔ اُن کی ایسی علامتیں ہیں جو چھپ نہ سکیں گی، وہ ہدیہ کھائیں گے اور صدقہ نہیں کھائیں گے، ان کے دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت ہوگی، اگر تم سے ہوسکے تو اس ملک میں چلے جاؤ۔‘‘ [3]
|