Maktaba Wahhabi

204 - 704
علاء بن زبیر کلابی اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے روم پر فارس کا غلبہ دیکھا، پھر روم کا غلبہ فارس پر ، پھر میں نے مسلمانوں کا غلبہ فارس اور روم پر دیکھا، اور شام وعراق پر ان کی حکومت وسلطنت دیکھی، یہ سب کچھ اللہ کی توفیق سے صرف پندرہ سال میں ہوا۔ [1] سر زمینِ مکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تنگ ہوگئی: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرکینِ مکہ کی شدید عداوت ، انتہائی کینہ اور غایت درجہ کے بغض کے جن واقعات کا میں نے اب تک ذکر کیا ہے ، یہ حقیقتِ حال کا تھوڑا سا حصہ ہے ۔ واقعہ یہ ہے کہ کسی بھی قادر الکلام کاتب کا قلم کفارِ مکہ کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عداوت کی حقیقی تصویر کشی سے عاجز ہے۔ ان مشرکینِ مکہ نے ظلم وطغیان اور عداوت وسرکشی کے ان تمام طریقوں کو اختیار کیا، جن کا گزر عقل انسانی میں ہوسکتا تھا، جیسا کہ اب تک کی تحریر سے معلوم ہوا کہ انہو ں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی غایت درجہ اہانت کی، مذ1ق اُڑایا، مارا، سر پر اونٹ کی اوجھری ڈال دی، گلا گھونٹ کر ہلاک کردینا چاہا، اور اوباشِ مکہ کو پیچھے لگادیا، تاکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پھبتیاں کسیں۔ اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم وفودِ عرب سے ملتے ، تاکہ انہیں اسلام کی دعوت دیں تو شیاطینِ مکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے لگ جاتے، آپ پر پتھروں کی بارش کرتے، آپ کے سر پر مٹی ڈال دیتے، قہقہے لگاتے ۔ کئی سال تک آپ انہی آزمائشوں سے گزرتے رہے، یہاں تک کہ ان مشرکین کے چھوٹے بچے جو اس زمانے میں بڑے ہوئے آپ کا مذاق اڑاناان کی عادت ہوگئی تھی ،اور ان کے قبولِ حق کی فطرت مسخ ہوگئی تھی، اس لیے کہ انہوں نے جب اپنی آنکھیں کھولیں تو پوری مکی سوسائٹی کو ایسا ہی پایا کہ تمام مشرکین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کا مذاق اڑاتے تھے ، اس لیے ان کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ واقعی اس کی دعوت ناحق ہے ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت ان کی نگاہوں سے اوجھل ہوگئی، حالانکہ انہی کے باپ دادا اسلام سے پہلے آپ کو ’’الصادق الأمین ‘‘ کا لقب دیتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان حالات کے پیشِ نظر مکہ کی سوسائٹی میں غریب الوطن بن گئے تھے، اور مکہ کی زمین آپؐ کے لیے بدل گئی تھی، وہ زمین نہیں رہی تھی جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نبوت سے پہلے چلا کرتے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے خانۂ کعبہ کی تعمیر کے وقت حجرِ اسود کو اس کی جگہ پر رکھنے کے سلسلے میں اہلِ مکہ کے درمیان فیصلہ کیا تھا۔ اس لیے کہ اس وقت تمام اہلِ مکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت، امانت اور عظیم دور اندیشی پر متفق تھے۔ جب حالت بہت زیادہ دِگر گوں ہوگئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مکہ میں دعوت کاکام کرنا ممکن نہ رہا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہجرت کرکے یثرب چلے جانے کا حکم دیا۔ جیسا کہ آئندہ اس کی تفصیل آئے گی۔ یہاں ایک قابل ذکر بات یہ ہے کہ مشرکینِ مکہ کے ، بعثتِ نبوی سے قبل اور اس کے بعد کے موقف میں یہ شدید تبدیلی اور ان کے دلوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دعوتِ توحید کے خلاف انتہائی درجے کا بغض وکینہ ان کی بُت پرستی کی وجہ سے پیدا ہوا اور پھر حالات کی تبدیلیوں کے ساتھ ان کی رگ وپے میں رچ بس گیا۔ اور ہم نے ہندوستان میں اس بات کا خوب مشاہدہ کیا ہے کہ وہاں کے مشرکین اور بُت پرستوں کی سب سے پہلی صفت موحدین کے خلاف ان کے دلوں میں شدید بغض
Flag Counter