لطف یہ ہوا کہ انھوں نے جو لامع الانوار کے آخر ورق پر جواب نہ لکھنے کی تین وجہیں لکھی ہیں، انھیں وجہوں سے ان کا جواب سے عاجر وقاصر ہونا ثابت ہو گیا۔و نیز انھیں وجہوں سے ان کی قابلیت وحدیث دانی کا اندازہ بھی نہایت اچھی طرح معلوم ہو گیا۔ اب ہم یہاں اون وجہوں کو ملاحظہ ناظرین کے واسطے نقل کر کے ان وجوہ کے تنائج کو ظاہر کرتے ہیں۔ اور چونکہ دوسری وجہ میں ہم پر وضع روایت کا غلط اتہام قائم کیا گیا ہے اور اسی اتہام کو نور الابصار کے جواب نہ لکھنے کی ایک بہت بڑی وجہ سمجھی گئی ہے ۔ اس لیے ہم دوسری وجہ کو پہلے لکھنا مناسب سمجھتے ہیں۔ پس اب پہلے حضرت شوق صاحب کی دوسری وجہ کی سیر کو لو پھر اس کے بعد ہم ان کی پہلی اور تیسری وجہ کی سیر کرائینگے۔ صاحب کی دوسری وجہ اے ناظرین !میں نے نور الا بصار میں لکھا ہے کہ بخار ی کی ایک اور روایت میں ہے اربعا وعشرین لیلۃ یعنی قبا میں آپ چوبیس رات قیام کیا۔ اس پر مولوی شوق صاحب (جو اپنے کو سر لوح محدث کامل الفن لکھوایا کرتے ہیں)اسی لامع الانوار کے آخری ورق میں فرماتے ہیں کہ’’چوبیس روز قیام قبا کی نسبت کسی کتاب حدیث کوئی روایت ہر گز نہیں ہے۔‘‘اور پھر فرماتے ہیں۔’’ذرا ملاحظہ ہو کہ ایک تو چوبیس روز کی روایت گڑھی گئی اور اس پر حوالہ بھی کس کا دیا کہ بخاری کا۔‘‘ اور پھر۔۔۔۔۔۔۔۔فرماتے ہیں ۔’’جس شخص کی یہ حالت ہو وہ کیا اور اس کا رسالہ کیا ۔‘‘سبحان اللہ محدثہو تو ایسا ہو اور کامل الفن ہو تو ایسا ہو۔یہاں مولانا شوق کی محدثیت اور کامل الفنیت قابلِ تماشا ہے۔ دیکھو قبا میں چوبیس رات قیام کرنے کی روایت صحیح بخاری میں موجود ہے۔ اور کہاں کہ پارہ دوم میں۔ اور کن نسخوں میں بھی کہ جو ہندوستان میں شائع ہیں جن میں درس تدریس جاری ہے پڑھا پڑھایا جاتا ہے۔ یعنی بخاری مطبوعہ مصطفائی کے صفحہ ۶۱ میں اور بخاری مع فتح الباری مطبوعہ انصاری کے صفحہ ۳۶۱ میں۔ اگر مولانا شوق کی محدثیت اور ان کے کمال کو دیکھو کہ انھوں نے کس صفائی سے اس روایت کا انکار کیا ہے اور کس دلیری وجرات سے اس روایت کے گڑھنے کا مچھر انہام کیا ہے۔ اور کس بے باکی سے اپنے اسی کمال وقابلیت کو |
Book Name | مقالات محدث مبارکپوری |
Writer | الشیخ عبدالرحمٰن مبارکپوری |
Publisher | ادارہ علوم اثریہ |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 277 |
Introduction | مولانا محمد عبدالرحمٰن مبارکپوری شیخ الکل فی الکل میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی کے چند مامور شاگردوں میں سے ایک ہیں ۔آپ اپنے وقت کےبہت بڑے محدث،مفسر، محقق، مدرس ، مفتی،ادیب اور نقاد تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں علم کی غیر معمولی بصیرت وبصارت،نظر وفکرکی گہرائی ،تحقیق وتنقیح میں باریک بینی اور ژرف نگاہی عطاء فرمائی تھی ۔زہد وتقوی ،اخلاص وللّٰہیت،حسن عمل اور حسن اخلاق کے پیکر تھے۔یہ ایک حقیقت ہےکہ’’برصغیر پاک وہند میں علم حدیث‘‘ کی تاریخ تب تلک مکمل نہیں ہوتی جب تک اس میں مولانا عبدالرحمٰن محدث مبارکپوری کی خدمات اور ان کا تذکرہ نہ ہو۔جامع الترمذی کی شرح تحفۃ الاحوذی ان ہی کی تصنیف ہے۔ زیر تبصرہ کتاب’’مقالات محدث مبارکپوری ‘‘ مولانا محمد عبد الرحمٰن مبارکپوری کی نایاب تصانیف کا مجموعہ ہے ۔اس میں مولانامبارکپوری مرحوم کی آٹھ تصانیف کے علاوہ ان نادر مکتوبات اور شیخ الھلالی کا وہ قصیدہ جو انہوں نے حضرت مبارکپوری کےمحامد ومناقب میں لکھا شامل اشاعت ہے۔ |