Maktaba Wahhabi

210 - 704
ہجرتِ حبشہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو ہجرتِ حبشہ کی اجازت: جب مشرکین کی مسلمانوں کو ایذاء رسانی اور ان کے ساتھ ان کا ظالمانہ سلوک ، ان کی بُری طرح پٹائی کرنا، اور انہیں ذلیل ورسوا کرنا انتہاء کو پہنچ گیا ، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کا دفاع کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے، اور آپ کو علم تھا کہ حبشہ کا بادشاہ اصحمہ نجاشی ایک انصاف پرور بادشاہ ہے جس کے پاس کسی پر ظلم نہیں ہوتا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو ہجرتِ حبشہ کی اجازت دے دی، اور ان سے کہا: وہاں چلے جاؤ، یہاں تک کہ تمہارے لیے اللہ تعالیٰ آسانی پیدا کردے۔ چنانچہ ماہِ رجب 5 نبوی میں بارہ مرد اور چار عورتیں حبشہ چلے گئے، ان میں سے پہلے آدمی عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ اور ان کی بیوی رقیہ رضی اللہ عنھا بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھیں۔ اللہ کے رسول نے ان مہاجرین سے سفر کے وقت کہا تھا: اللہ ان کا ساتھی ہو، بےشک لوط علیہ السلام کے بعد یہ پہلے آدمی ہیں جنہوں نے اپنی بیوی کے ساتھ اللہ کی راہ میں ہجرت کی ہے۔ اور عہدِ اسلام میں یہ پہلی ہجرت تھی، یہ لوگ مکہ سے رات کی تاریکی میں خفیہ طور پر نکلے تھے، تاکہ قریشیوں کو ان کے سفر کی اطلاع نہ ہوجائے ۔ یہ لوگ شُعیبہ کے بندرگاہ پر پہنچے، اور حبشہ جانے والی دوتجارتی کشتیوں پر سوار ہوگئے ۔کفارِ قریش کو ان کی اطلاع اس وقت ہوئی جب دونوں کشتیاں انہیں لے کر ساحل سمندر سے حبشہ کی طرف روانہ ہوچکی تھیں، یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ وہاں پہنچ کر سکون واطمینان کے ساتھ اچھے پڑوس میں رہنے لگے، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امید ظاہر کی تھی۔ وہاں یہ لوگ اپنے دین اور اپنی جانوں کی طرف سے مامون ومحفوظ ہوگئے اور اللہ کی عبادت دل جمعی کے ساتھ کرنے لگے۔ وہاں نہ انہیں کوئی ایذاء پہنچاتا تھا اور نہ وہ اپنے بارے میں کوئی تکلیف دہ بات سنتے تھے ۔ یہ لوگ وہاں شعبان اور رمضان دو ماہ رہائش پذیر رہے، اس درمیان مکہ سے ان کے پاس خبر آئی کہ مشرکین نے اسلام کے ساتھ مصالحت کرلی ہے، اور مسلمانوں کو مکہ میں آزاد زندگی گزارنے کی اجازت دے دی ہے ۔ اب انہیں وہاں کوئی اذیت نہیں پہنچاتاہے، یہ خبر ملتے ہی وہ لوگ اپنے شہر کو یاد کرنے لگے جسے انہوں نے بحالت ِ مجبوری چھوڑا تھا۔ اور سب نے بالاتفاق مکہ لوٹ جانے کا فیصلہ کیا، اس لیے کہ ہجرت کا سبب ختم ہوچکا تھا اور اب غربت میں رہنے کی کوئی وجہ باقی نہیں رہی تھی۔ چنانچہ یہ لوگ شوال میں مکہ کی طرف لوٹ گئے، لیکن جب اس کے قریب پہنچے تو انہیں یہ تکلیف دہ خبر ملی کہ وہاں مسلمانوں کے خلاف اب تک حسبِ سابق ظلم وبربریت کو روا رکھا جا رہا ہے، اور انہیں حبشہ میں غلط خبر ملی تھی۔ حقیقتِ حال معلوم ہونے کے بعد ان میں سے بعض وہاں کے بعض زعماء وسادات کے جوار میں مکہ چلے گئے ، اور بعض خفیہ طور پر داخل ہوگئے، وہاں پہنچ کر انہیں یقین ہوگیا کہ مسلمانوں کے خلاف ظلم وبربریت کو ان کے سفر حبشہ سے پہلے سے بھی زیادہ روا رکھا جارہا ہے ، اور ابتلاء وآزمائش زیادہ شدید ہوگئی ہے، اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دوبارہ ہجرتِ حبشہ کا مشورہ دیا۔
Flag Counter