رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عَلَمِ جہاد مسجدِ فتح کے قریب مقامِ حجون میں گاڑ دیا گیا، جیسا کہ عُروہ بن زبیر رحمۃ اللہ علیہ سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کیا ہے۔
بُتانِ کعبہ منہ کے بل گرنے لگے:
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُٹھ کھڑے ہوئے، مہاجرین وانصار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چاروں طرف چل رہے تھے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجدِ حرام میں داخل ہوئے، حجرِ اَسود کو بوسہ دیا، پھر بیت اللہ کا طواف کیا، اُس وقت آپؐ کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی، اور کعبہ کے گرد اور اُس کے اوپر تین سو ساٹھ بت تھے، آپؐ اُن میں سے ہر ایک کو اُس لکڑی سے ٹوکتے اور کہتے: اب حق آگیا، اور باطل سرنگوں ہوگیا، اب حق آگیا اور باطل اب سر نہیں اٹھائے گا اور نہ واپس آئے گا۔ [1]
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم طواف کرتے ہوئے کعبہ کے بغل میں ایک بُت کے پاس سے گزرے جس کی مشرکین عبادت کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم لکڑی اس کی آنکھ میں گھونپتے ہوئے کہنے لگے: اب حق آگیا، اور باطل سرنگوں ہوگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم طواف سے فارغ ہونے کے بعد صفا پہاڑی کے پاس آئے، اس کے اوپر چڑھ گئے، یہاں تک کہ کعبہ کو دیکھنے لگے، پھر دونوں ہاتھ اٹھاکر اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا اور دعا کرنے لگے۔[2]
جابر رضی اللہ عنہ نے روایت کی ہے کہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ میں داخل ہوئے، اس وقت بیت اللہ کے اندر اور اس کے گرد تین سو ساٹھ بُت تھے، جن کی عبادت کی جاتی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ان سب کو اوندھے منہ گِرا دیا گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھا:
((وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۚ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا)) [الإسرائ:81]
’’ حق آگیا اور باطل مٹ گیا، بے شک باطل تو مٹنے کی چیز ہوتی ہی ہے۔‘‘
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ کے اندر داخل ہوئے اور دو رکعت نماز پڑھی۔ آپؐ نے اس میں ابراہیم، اسماعیل اور اسحاق عليهم السلام کے مجسّمے دیکھے۔ مشرکوں نے ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھ میں قسمت کا حال معلوم کرنے والی لکڑیاں دے رکھی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ انہیں ہلاک کرے، ابراہیم علیہ السلام کبھی لکڑیوں کے ذریعہ قسمت کا حال معلوم نہیں کرتے تھے۔ [3]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم حالتِ طواف میں اپنی سواری پر تھے۔ طواف پورا کرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ کو بلایا، اُن سے کعبہ کی کُنجی لی، دروازہ کھولا، اور اندر داخل ہوگئے، وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لکڑی سے بنی ایک کبوتری ملی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے توڑ کر پھینک دیا، صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ جب تک کعبہ کے اندر موجود مجسّمے اور تصویریں توڑ نہیں دی گئیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اندر نہیں گئے۔ [4]
|