Maktaba Wahhabi

257 - 704
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے کہا: تم لوگ اپنی رہائش گاہوں میں چلے جاؤ، تو عباس بن عبادہ بن نضلہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! اس اللہ کی قسم! جس نے آپ کو دینِ حق دے کر بھیجا ہے، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہیں گے تو کل ہم اپنی تلواروں کے ساتھ اہلِ منیٰ پر پِل پڑیں گے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے اس بات کا حکم نہیں دیا گیا ہے ، تم لوگ اپنی رہائش گاہوں میں چلے جاؤ، چنانچہ وہ لوگ فوراً واپس جاکر اپنے بستروں پر سوگئے۔ اور سیرتِ حلبیہ میں آیا ہے کہ جبریل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں طرف کھڑے تھے، اور بیعت کے وقت وہ سفید لباس پہنے ہوئے تھے ، انہیں حارثہ بن نعمان رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی کی شکل میں دیکھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں پوچھا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم نے اچھی چیز دیکھی ہے، وہ جبریل علیہ السلام تھے، اور جب انصار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے رخصت ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نفسیاتی طور پر بہت ہی مطمئن تھے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ایسی قوم کی صورت میں قوتِ دفاع دے دی تھی جو جنگجو اور ہتھیاروں اور اسباب واسلحہ والے تھے۔ [1] قریش انصار کے تعاقب میں : جب صبح ہوئی تو سردارانِ قریش میں سے بہت سے لوگ انصارِ مدینہ کے خیموں میں آئے اور کہا: اے خزرج والو!ہمیں خبر ملی ہے کہ تم لوگ ہمارے اس آدمی (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) سے ملے ہو، اور اسے ہمارے پاس سے نکال کر لے جانا چاہتے ہو، اور تم نے ہم سے جنگ کرنے کے لیے اس کے ہاتھ پر بیعت کی ہے۔ اللہ کی قسم! ہمارے لیے اس سے زیادہ کوئی مبغوض بات نہیں کہ ہمارے اور تمہارے درمیان جنگ ہو۔ یہ سُن کر وہاں موجود بعض مشرکینِ مدینہ قسم کھانے لگے کہ ایسی کوئی بات نہیں ہوئی ہے، اور نہ ہمیں کسی ایسے ارادے کا علم ہے ۔ ان مشرکین نے سچ ہی کہا ، اس لیے کہ انصار نے جو کچھ کیا اس کی خبر ان کو نہیں تھی ، پھر وہ لوگ عبداللہ بن ابی بن سلول کے پاس آئے اور اس سے بات کی تو اس نے کہا: یہ تو بہت ہی خطرناک معاملہ ہے، میری قوم اس طرح کی کوئی جھوٹی بات میرے بارے میں نہیں کہہ سکتی ہے ، اگر میں یثرب میں ہوتا تو میری قوم ایسا نہیں کرتی ، یہ سن کر قریش والے لوٹ گئے۔ کے میدان میں موجود سارے لوگ بکھر گئے، اور براء بن معرو ر بھی وہاں سے مدینہ کے لیے کوچ کرگئے، جب بطن یاجج کے پاس پہنچے جو مکہ سے آٹھ میل کے فاصلے پر ہے تو ان کے دوسرے مسلمان ساتھی اُن سے جاملے، کفارِ قریش نے بیعت کے بارے میں کریدنا شروع کیا تو اُسے سچ پایا، اس لیے دوبارہ ان کی تلاش میں نکل پڑے ، ان کو اذاخر کے مقام پر سعد بن عبادہ اور منذر بن عمرو رضی اللہ عنھما ملے یہ دونوں ہی نقیبوں میں سے تھے۔ منذر رضی اللہ عنہ نے تو ان کافروں کو عاجز بنادیا یعنی ان کی گرفت میں نہیں آئے ، البتہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کو انہو ں نے پکڑ کر ان کے دونوں ہاتھوں کو ان کی گردن سے لگاکر باندھ دیا، اور مارتے پیٹتے اور سرکے بال کھینچتے مکہ لے آئے۔سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : جب میں ان کے ہاتھوں میں گرفتار تھا تو قریش کے کچھ لوگوں کا وہاں سے گزر ہوا، ان میں ایک خوبصورت سفید رنگ والا آدمی تھا، میں
Flag Counter