گزریں ، پھر اللہ آپ کو غلبہ دے دے تو ہمیں چھوڑ دیں گے ، اور اپنی قوم کے پاس لوٹ جائیں گے؟
یہ سُن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مُسکرائے اور کہنے لگے: نہیں ، بلکہ تمہارے عہود اور مواثیق میرے ہوں گے، اور تمہارا شرف وناموس میرا ہوگا، میں تم میں سے ہوں گا، اور تم لوگ میرے وجود کا ایک حصہ۔ تم لوگ جس سے لڑوگے اس سے میں لڑوں گا، اور جس سے صلح کروگے اُس سے میں بھی صلح کروں گا۔
براء رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ ! اپنا ہاتھ بڑھائیے تاکہ ہم لوگ بیعت کریں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ اپنے درمیان سے بارہ نقیبوں کا انتخاب کرو جو اپنی قوم کے نمائندے ہوں گے۔ موسیٰ علیہ السلام نے بھی بنی اسرائیل میں سے بارہ نقیبوں کو چُنا تھا۔ اور تم میں سے کوئی اپنے بارے میں یہ نہ سوچے کہ اسے کیوں نہیں چُنا گیا۔ اس لیے کہ یہ پسند جبریل علیہ السلام کی ہے ، چنانچہ ان لوگوں نے اپنے درمیان سے بارہ نقیبوں کا انتخاب کیا، نو خزرج میں سے اور تین اوس میں سے۔
اِن حضرات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیگر تمام انصارِ مدینہ کا نقیب بنادیا:(1) بنی نجار کے نقیب اسعد بن زُرارہ رضی اللہ عنہ چنے گئے۔ (2) اور بنی سلمہ کے نقیب براء بن معرور اور عبداللہ بن عمرو بن حرام رضی اللہ عنہ ہوئے ۔(3) اور بنی ساعدہ کے نقیب سعد بن عبادہ اور منذر بن عمرو رضی اللہ عنہ ہوئے ۔(4) اور بنی زُریق کے نقیب رافع بن مالک بن عجلان رضی اللہ عنہ ہوئے ۔(5) اور بنی حارث ابن خزرج کے نقیب عبداللہ بن رواحہ اور سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ ہوئے۔(6) اور بنی عوف ابن الخزرج کے نقیب عبادہ بن صامت ہوئے۔
قبیلۂ اوس کے بنی عبدالأشہل سے (1) اُسید بن حضیر (2) ابو الہیثم بن تیہان، اور بعض نے ابو الہیثم کے بجائے رفاعہ بن عبدالمنذر کا نام بتایا ہے۔(3) اور بنی عمرو بن عوف کے نقیب سعد بن خیثمہ رضی اللہ عنہ ہوئے ۔
ان نقیبوں کی تعداد بارہ ہوئی، ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ اپنی قوم کے ذمہ دار ہو، جیسے عیسیٰ بن مریم علیہما السلام اپنے مددگاروں کے ذمہ دار تھے اور میں اپنی قوم کا ذمہ دار ہوں ۔
سب سے پہلے جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پربیعت کی وہ براء بن معرور رضی اللہ عنہ تھے ۔ایک دوسرا قول ہے کہ سب سے پہلے اسعد بن زُرارہ رضی اللہ عنہ نے بیعت کی ۔ تیسرا قول ہے کہ وہ ابو الہیثم بن تیہان رضی اللہ عنہ تھے۔ پھر سب لوگ پے در پے آنے لگے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دستِ مبارک میں اپنا ہاتھ دینے لگے۔ ان سب نے آپ سے اس شرط پر بیعت کی کہ وہ سب آپ کی حفاظت ان تمام لوگوں سے کریں گے جن سے وہ اپنے آپ کی ، اپنی عورتوں اور اپنے بچوں کی کرتے ہیں، اور یہ کہ وہ لوگ کالے اور سُرخ تمام سے جنگ کرنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیں گے، اور یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحابِ کرام سب کے سب مکہ سے ہجرت کرکے ان کے پاس مدینہ چلے جائیں گے۔
جب سب لوگ بیعت سے فارغ ہوگئے تو شیطان نے عقبہ کی چوٹی سے اپنی پوری قوت کے ساتھ چیخ کر اعلان کیا :
’’اے جُگنووں والے! کیا تم لوگ برائیوں سے بھرے (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) اور اس کے ساتھ دیگر بے دینوں کو یونہی چھوڑ دوگے جنہوں نے تم سے جنگ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے ؟‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ عقبہ پہاڑی کا ’’ازب ‘‘ نامی شیطان ہے ، یہ ازیب شیطان کا بیٹا ہے ، اے اللہ کے دشمن! کیا تم سن رہے ہو، اللہ کی قسم! میں ضرور تمہارے لیے فارغ ہوں گا۔
|