اس کی گواہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریشی دشمنوں نے بھی دی ہے ، اُن میں سے ابوسفیان رضی اللہ عنہ ہیں جیساکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الوحی میں روایت کی ہے کہ جب ہرقل نے ان سے پوچھا کہ وہ تمہارے درمیان نسب کے اعتبار سے کیسا ہے ؟ تو کہا : وہ ہمارے درمیان اچھے نسب والا ہے، تو ہرقل نے کہا: اسی طرح انبیاء ہمیشہ اپنی قوم کے سب سے اچھے نسب والوں میں بھیجے گئے۔[1]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نسب عدنان تک:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نسب عدنان تک مندرجہ ذیل ہے:
محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبدمناف بن قصی بن کلاب بن مُرّہ بن کعب بن لؤی بن غالب بن فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان۔
اہل سیروانساب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نسب نامے کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے؛ پہلا حصہ جس پر سب کا اتفاق ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عدنان تک ہے جیسا کہ ابھی میں نے ذکر کیا ہے۔دوسرے حصہ میں اختلاف ہے، یعنی عدنان کے والد ’’اَدو‘‘سے لے کر قیدار بن اسماعیل علیہ السلام تک اور تیسراحصہ اسماعیل سے آدم علیہما السلام تک۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے پہلے حصہ کا ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے کہ یہاں تک یقینی طور پہ صحیح ہے، ماہرینِ نسب کے درمیان اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔عدنان کے اوپر مختلف فیہ ہے۔ لیکن اس بات میں ماہرینِ نسب کے درمیان کوئی اختلاف نہیں کہ عدنان اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے، اور صحابہ اور تابعین کے نزدیک صحیح قول کے مطابق اسماعیل علیہ السلام ہی ذبیح اللہ تھے۔
بہت سے ائمہ حدیث وتاریخ نے آپ کے نسب نامہ کے دوسرے اور تیسرے حصے کو بھی بیان کیا ہے، اور باحثِ کبیر ’’رحمۃ للعالمین ‘‘کے مصنف نے اُن کی پیروی کرتے ہوئے اُن دونوں حصوں کا بھی ذکر کیا ہے، اور کہا ہے کہ روایت : ((کذب النسّابون))…’’نسب بیان کرنے والوں نے جھوٹ بیان کیا ہے۔‘‘ کے صحیح ہونے کی مجھے کوئی دلیل نہیں ملی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے:
{وَقُرُوْنًا بَیْنَ ذٰلِکَ کَثِیْرًا}[الفرقان:38]
’’اور اُن وقتوں کے درمیان پائی جانے والی بہت سی دوسری قوموں کو بھی (ہلاک کردیا)۔‘‘ [2]
بلکہ یہ حدیث موضوع یعنی جھوٹی ہے جیسا کہ علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے سلسلۃ الأحادیث الضعیفہ والموضوعہ (ص: 111) میں بیان کیا ہے۔اور انہی ائمۂ حدیث وتاریخ کی پیروی کرتے ہوئے ابن اسحاق، ابن جریر اور دیگر حضرات نے بھی آپ کے نسب نامہ کے ان دونوں حصوں کا بھی ذکر کیا ہے ۔ اور یہی رائے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ او ران کے علاوہ دیگر بہت سے علماء کی ہے۔
ماہرینِ نسب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نسب نامہ کا تیسرا حصہ دنیا میں موجود تورات سے لیا ہے، اور اسے امام ابن حزم
|