Maktaba Wahhabi

370 - 704
واقدی نے لکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس غزوہ کے لیے مدینہ سے دس دن باہر رہے، اور ابن سعد نے لکھا ہے کہ مسلمان فوجیوں کی تعداد تین سو تھی۔ [1] سریّہ زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ : ہم سب کو یہ بات معلوم ہوگئی کہ قریش والے اہلِ شام کے ساتھ اپنے تجارتی کاروبار کے لیے اسی راستہ پر بھروسہ کرتے تھے جس پر بالعموم چل کر شام تک جاتے تھے، اوروہ راستہ ساحلِ سمندر کا تھا جو مدینہ سے قریب تھا، اور اب وہ مسلمانوں کے زیر نگرانی تھا، نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ساحل پر رہنے والے عرب قبائل کے ساتھ مصالحت کررکھی تھی، اور وہ سب بالعموم اس مصالحت کا پاس ولحاظ رکھتے تھے۔ اور قریشیوں کی زندگی کا انحصار تجارت پر تھا، وہ اس سے مستغنی نہیں ہوسکتے تھے، گرمی کے زمانے میں ان کے تجارتی اَسفار شام کی طرف اور سردی میں حبشہ کی طرف ہوتے تھے۔ غزوۂ بدر کے بعد جب گرمی کا زمانہ آیا، اور شام کی طرف ان کے سفر کا وقت قریب ہوا، تو انہیں پریشانی لاحق ہوئی، اور کہنے لگے: محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور اس کے ساتھیوں نے ہماری تجارت کو بہت بڑا نقصان پہنچایاہے، سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم ان کے ساتھ کس طرح پیش آئیں، اور کس راستے سے ہم اپنی تجارت کے لیے ملکِ شام تک پہنچیں۔ بعض لوگوں نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ اپنے سرداروں کی ایک جماعت کی قیادت میں عراق کے راستہ سے شام جائیں، ان کے وہ سرداران ابو سفیان بن حرب، صفوان بن امیہ اور حویطب بن عبدالعزیٰ وغیرہ تھے۔اس قافلے میں مالِ کثیر اور بہت ساری چاندی تھی، اور انہوں نے اس سفر میں اپنی رہنمائی کے لیے فرات ابن حیان بن عجلی کا انتخاب کیا، تاکہ وہ انہیں ایسے راستے سے لے جائیں جس میں مسلمانوں سے ان کی مڈبھیڑ نہ ہو، چنانچہ فرات انہیں عراق کے علاقے میں ذات عرق کے راستے سے لے گیا، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قافلے کی خبر مناسب وقت پر مل گئی، اور وہ اس طرح کہ نُعیم بن مسعود مدینہ آیا جسے اس قافلہ کی روانگی کا علم تھا، اور وہ اپنی قوم کے دین پر تھا، اور مدینہ میں کنانہ بن ابی الحقیق نضیری سے ملا، اُس وقت ان کے پاس قبیلۂ اسلم کے سلیط ابن نعمان موجود تھے جو مسلمان ہوچکے تھے، ان سب نے مل کر خوب شراب پی، اُس وقت تک شراب حرام نہیں ہوئی تھی، نعیم بن مسعود نے نشہ کی حالت میں اس قافلے اور اس کے پاس موجود مال واسباب اور قافلے میں صفوان بن امیہ کے ہونے کی بات کی۔ سلیط وہاں سے فوراً نکلے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان باتوں کی اطلاع دی، آپؐ نے اسی وقت سو گھوڑ سواروں کا ایک فوجی دستہ زید بن حارثہ الکلبی رضی اللہ عنہ کی قیادت میں روانہ کیا، زید رضی اللہ عنہ نے تیزی کے ساتھ چل کر اچانک قافلے کو اُس وقت جالیا جب وہ سرزمینِ نجد میں قردہ نامی ایک کنویں پر ٹھہرا ہوا تھا، مسلمانوں کے آنے کا احساس ہوتے ہی مشرکین گھبرا کر بھاگ پڑے اور اپنا سارا مال واسباب چھوڑ دیا، جن پر مسلمانوں نے قبضہ کرلیا، جس کی مالیت ایک لاکھ تھی، مشرکوں میں سے صرف ایک یا دو آدمی قید کیے گئے، فرات بن حیان بھی قید کرلیا گیا جومشرکوں کو راستہ دکھلا رہا تھا۔ اسے مدینہ لاکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی
Flag Counter