اہل قریش ابو طالب کے پاس اس سے پہلے بھی ایک بار آئے تھے اور کہا تھا: اے ابوطالب یا تو آپ اُسے ہماری ایذا رسانی سے روکیے یا ہمارے درمیان سے ہٹ جائیے، اس لیے کہ آپ تو دین وعقیدہ میں ہمارے ہی جیسے ہیں ، ہم لوگ اس سے نمٹ لیں گے ، تو ابوطالب نے ان کو نرم بات کہہ کر واپس کردیا تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ڈگر پرچلتے رہے ، اللہ کے دین کا اعلان کرتے رہے، اور لوگوں کو اس کی دعوت دیتے رہے ، لیکن حالت دن بدن خراب ہوتی گئی، لوگ دن بدن آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دور ہوتے گئے، اور ان کا کینہ بڑھتا گیا۔ اہلِ قریش اپنی مجلسوں میں اکثر وبیشتر آپؐ کا ذکر چھیڑ کر ایک دوسرے کو آپ کے خلاف اُکساتے رہے، یہاں تک کہ تیسری بار سب مل کر ابوطالب کے پاس پہنچے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ان سے بہت کچھ کہا۔ تب ابوطالب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہاکہ وہ ان کو ان کی طاقت سے زیادہ زیر بار نہ کریں، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ جواب دیا جو ابھی گزرچکا ہے کہ آپ دعوتِ اسلامیہ کا کام ہرگز نہیں چھوڑیں گے، چاہے اہلِ قریش آپ کے دائیں ہاتھ میں آفتاب اور بائیں ہاتھ میں چاند لاکر رکھ دیں، اور رونے لگے، تو ابوطالبؐ نے آپ کو قریش کے حوالے کرنے سے انکار کردیا۔
جب قریش نے دیکھا کہ ابو طالب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے حوالے کرنے سے انکار کردیا تو ایک دن عُمارہ بن ولید بن مغیرہ کو لے کر ان کے پاس آئے اور کہا: اے ابوطالب! یہ عمارہ بن ولید ہے، جو قریش کا سب سے بھڑکیلا اور خوبصورت جوان ہے ، اسے آپ لے لیجیے ، یہ آپ کے ساتھ رہے گا، اور آپ کی مدد کرے گا، اسے آپ اپنا بیٹا بنالیجیے ،اور اپنے بھتیجے کو ہمارے حوالے کردیجیے جو ہمارے اور ہمارے آباء واجداد کے دین کا شدید مخالف ہوگیا ہے تاکہ ہم اسے قتل کردیں۔ ہم آپ کو ایک آدمی کے بدلے ایک آدمی دے رہے ہیں ، تو ابوطالب نے کہا: اللہ کی قسم! کیسا بُرا معاملہ تم لوگ میرے ساتھ کرنا چاہتے ہو؟ ! تم لوگ مجھے اپنا بیٹا دوگے، میں اسے کھلاؤں گا، پلاؤں گا ، اور میں تمہیں اپنا بیٹا دوں جسے تم لوگ قتل کردوگے۔اللہ کی قسم! ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔
مطعم بن عدی بن نوفل بن عبدمناف نے کہا: اللہ کی قسم! اے ابوطالب! آپ کی قوم نے آپ کے ساتھ انصاف کرنا چاہا ہے ، اور اس چیز سے چھٹکارا پانے کی پوری کوشش کی ہے ، جسے آپ بھی ناپسند کرتے ہیں ، میں سمجھتا ہوں کہ آپ ان کی طرف سے کوئی بات قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، ابوطالب نے کہا: اللہ کی قسم! انہوں نے میرے ساتھ انصاف نہیں کیاہے، بلکہ تم تو مجھے رُسوا کرنا چاہتے ہو اور میرے خلاف پوری قوم کو ابھار رہے ہو۔ تم جو کرناچاہو کرلو!! اس گفتگو کے بعد معاملہ مزید سنگین ہوگیا، جنگ کی آگ بھڑک اُٹھی اور اہلِ قریش کی عداوت اسلام اور مسلمانوں کے خلاف شدید تر ہوگئی۔
قریش کی عداوت انتہاء کو پہنچ گئی:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مشرکینِ قریش کے درمیان اس صریح اور واضح گفتگو کے بعد جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کفر وشرک پر مصالحت کی تمام امیدوں کو ختم کردیا، ان کی عداوت بہت ہی بڑھ گئی اور ان سب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت اور دشمنی پر قطعی اتفاق کرلیا، اور آپؐ کے خلاف سازشوں اور ایذاء رسانیوں کے تمام طریقے اختیار کرنے لگے، اپنے اوباشوں کو آپؐ کے خلاف اُبھارا، اور آپؐ کو قتل یا شہر بدر کردینا چاہا۔
|