Maktaba Wahhabi

65 - 704
کا قائل ہوگیا۔ اس لیے کہ انہی کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے مکہ میں اہل حرم اور حُجّاجِ بیت اللہ کے لیے پانی جیسی نادر ترین نعمت کو میسر فرما یا۔ (2) عبدالمطلب کی نذرکہ وہ اپنے ایک بیٹے کو اللہ کے لیے ذبح کریں گے، اور قرعہ عبداللہ کے نام نکلا: عبدالمطلب کو حاجیوں کی میزبانی اور پانی پلانے کا شرف حاصل تھا، انہیں گہرے پانی کے کنووں کی سخت ضرورت تھی، تاکہ حُجّاج سیراب ہوکر پانی پیتے رہیں، اسی لیے انہیں اس بات کی بڑی فکر تھی کہ کوئی قرشی بئر زمزم میں ان کا شریک نہ بن جائے۔ جب زمزم کا کنواں ظاہر ہوا، اور قریشیوں کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے کہا کہ اس میں ہمارا بھی حق ہے، اور ہم اپنے حق سے دستبردار نہیں ہوں گے، تو عبدالمطلب نے اصرار کیا کہ یہ صرف میرا ہے، کسی اور کا نہیں۔ عبد المطلب اکیلے تھے، ان کے ساتھ صرف ان کا بیٹا حارث تھا۔ اور بنو عبد شمس اور بنو عبدالدار تاک میں لگے ہوئے تھے کہ اپنی کثرتِ تعداد سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اُن سے یہ حق چھین لیں، اور ان کے شرکاء بن جائیں۔ اُس وقت عبدالمطلب کو اپنی کمزوری اور اس بات کا احساس ہوا کہ کاش اُن کے پاس قوی اور طاقتور لڑکے ہوتے جو لوگوں کو اُن کا حق چھیننے سے روکتے۔ چنانچہ انہوں نے اللہ کے لیے نذر مانی کہ اگر ان کے دس لڑکے ہوئے تو وہ ایک کو قربان کر دیں گے۔ جب اُن کے دس لڑکے پیدا ہوچکے، تو انہوں نے اُن کے درمیان قرعہ ڈالا کہ کسے ذبح کریں۔ قُرعہ عبداللہ بن عبدالمطلب کے نام نکلا۔ عبداللہ اپنے باپ کے سب سے چہیتے بیٹے ، اور اُن کے بہت مشابہ تھے، اور ہمیشہ ان کی بے پناہ محبت وایثار سے نوازے جاتے تھے۔ برادرانِ عبداللہ اورسردارانِ قریش عبدالمطلب کو قائل کرنے میں کامیاب ہوگئے کہ وہ اپنے بیٹے کا فدیہ دے دیں۔ عبداللہ اور دس اونٹوں کے درمیان قرعہ اندازی کی گئی تو قرعہ عبداللہ کے نام نکلا، عبدالمطلب اونٹوں کی تعداد دس سے بیس، تیس بڑھاتے گئے اور ہر بار قرعہ عبداللہ کے نام نکلتا گیا، یہاں تک کہ اونٹوں کی تعداد سو ہوگئی تب قُرعہ اونٹوں کے نام نکلا۔ عبدالمطلب نے پورے سو اونٹ ذبح کرکے لوگوں کے لیے چھوڑ دیئے، لوگوں نے اُس میں سے جتنا چاہا اپنے گھر لے گئے۔[1] واقدی نے لکھا ہے کہ یہ واقعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے پانچ سال پہلے کا ہے، اور اس کی تائید صحابیِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حکیم بن حزام بن خویلد رضی اللہ عنہ کے اس قول سے ہوتی ہے کہ میں حادثۂ فیل سے تیرہ سال پہلے پیدا ہوا، اور مجھے اس وقت ہوش تھا جب عبدالمطلب نے اپنے بیٹے عبداللہ کو ذبح کرنا چاہا تھا۔[2] یقینایہ واقعہ اس تقدیر الٰہی کی طرف اشارہ کررہا ہے کہ نبیٔ اُمّی ختم الرسل کو اللہ کے دو ذبیح اسماعیل بن ابراہیم علیہما السلام اور عبداللہ بن عبدالمطلب کے ذریعہ پیدا ہونا تھا۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں دو ذبیحوں کا بیٹا ہوں۔[3]
Flag Counter