آئے ہو، تو اُس سے دشمنی کی گئی۔ اگر میں اُس وقت زندہ رہا تو تمہاری زبردست مدد کروں گا۔اس کے کچھ ہی دنوں کے بعد ورقہ وفات پاگئے، اور چند دنوں کے لیے وحی کا آنا بند ہوگیا۔ [1]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت:
سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہ کے پاس رہنے کے بعد جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ڈر جاتا رہا تو پھر غارِ حرا جاکر اللہ تعالیٰ کی عبادت میں لگ گئے۔ اس کے بعد ایک ماہ سے زیادہ وحی کا سلسلہ بند رہا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُن دنوں قلق واضطراب کی حالت میں وحی کا انتظار کرتے رہے، یہاں تک کہ ماہِ شوال کے آخر میں ایک دن جبریل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔
امام بخاری ومسلم نے سیّدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے اُن ایام کے بارے میں روایت کی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے سُنا ہے کہ ایک دن راستہ چلتے ہوئے میں نے آسمان سے ایک آواز سُنی، تو مارے خوف ودہشت کے گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ گیا۔ پھر اپنے اہل وعیال کے پاس آیا، اور کہا: مجھے کمبل اوڑھادو، مجھے کمبل اوڑھادو،تو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا:
((يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ ﴿1﴾ قُمْ فَأَنذِرْ ﴿2﴾ وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ ﴿3﴾ وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ ﴿4﴾ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)) [المدثر:1-5]
’’اے چادر اوڑھنے والے، اٹھیے! اور لوگوں کو ( ان کے رب سے ) ڈرائیے، اور اپنے رب کی بڑائی بیان کیجیے، اور اپنے کپڑے پاک رکھیے، اور بتوں سے کنارہ کش ہوجائیے۔‘‘
اس کے بعددوبارہ وحی آنی شروع ہوگئی، اور مسلسل آتی رہی۔[2]
امام بخاری ومسلم نے یحییٰ بن ابی کثیر سے روایت کی ہے کہ میں نے سیّدنا ابو سلمہ بن عبدالرحمن رضی اللہ عنہ سے پوچھا: قرآن کی کون سی آیتیں پہلے نازل ہوئیں ؟ تو انہوں نے کہا:{یٰٓاَیُّہَا الْمُدَّثِّرْ} میں نے کہا: اور{اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ} کب نازل ہوئی ؟ تو انہوں نے کہا: میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا: قرآن کی کون سی آیتیں پہلے نازل ہوئیں؟ تو انہوں نے کہا: {یٰٓاَیُّہَا الْمُدَّثِّرْ} میں نے کہا: اور{اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ} ؟ تو انہوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں ایک مہینہ غارِ حرا میں گوشہ نشین رہ کر نیچے اترا، اور وادی میں پہنچا تو میں نے سُنا کہ کوئی مجھے آواز دے رہا ہے ، میں نے اپنے دائیں ، بائیں اور آگے پیچھے دیکھا تو کوئی نظر نہیں آیا، پھر آسمان کی طرف نظر ڈالی تو دیکھا کہ وہی فرشتہ ہوامیں تخت پر بیٹھا ہوا ہے۔مجھ پر کپکپی طاری ہوگئی۔ میں فوراً سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا کے پاس آیا،اور سے کہا: مجھے کمبل اوڑھادو، تو اللہ نے ((يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ ﴿1﴾ قُمْ فَأَنذِرْ ﴿2﴾ وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ ﴿3﴾ وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ)) [المدثر:1-4] آیات نازل فر مائیں۔’’اے چادر اوڑھنے والے، اٹھیے! اور لوگوں کو ( ان کے رب سے ) ڈرائیے، اور اپنے رب کی بڑائی بیان کیجیے، اور اپنے کپڑے پاک رکھئے۔‘‘
ایک روایت میں ہے : میں نے آسمان وزمین کے درمیان کرسی پر بیٹھے اُسی فرشتے کو دیکھاجو میرے پاس غارِ حرا میں آیا تھا۔ میں فوراً گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا ۔معلوم ہوا کہ یہ روایت ان آیا ت سے متعلق ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر توقفِ وحی کے بعد نازل ہوئی تھیں۔ اور اس کی دلیل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول ہے کہ ’’میں دوبارہ غارِ حرا لوٹنے کے بعد ایک مہینہ تک عبادت کرتا
|