دیا اور مسلمان تیزی کے ساتھ اس پر عمل کرنے لگے۔ یہ دیکھ کر طائف والے اللہ اور رشتہ داریوں کی دُہائی دینے لگے، تو مسلمان ایسا کرنے سے رُک گئے، اِن جنگی کارروائیوں نے کافروں کی نفسیات پر گہرا اثر ڈالا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِن کارروائیوں کے دوران طائف کے غلاموں کے لیے اعلان کروایا کہ اُن میں سے جو بھی قلعہ سے نکل کر مسلمانوں کے پاس آجائے گا وہ آزاد ہو جائے گا، چنانچہ تئیس (23) غلام باہر آگئے، انہی میں سے ابو بکرہ ثقفی رضی اللہ عنہ تھے، اور سب مسلمان ہوگئے، تو اللہ کے رسول نے اُن سب کو آزاد کر دیا، اور انہیں ثقیف والوں کو نہیں لوٹایا۔ [1]
حِصار طویل ہوگیا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کو مشقّت میں نہیں ڈالنا چاہتے تھے، اس لیے آپؐ نے نوفل بن معاویہ دیلی رضی اللہ عنہ سے مشورہ کیا تو انہوں نے کہا: لومڑی بِل میں گُھس گئی ہے۔ اگر آپ قیام کریں گے تو اسے پکڑلیں گے، اور اگر اُسے چھوڑ دیں گے تو وہ آپ کو نقصان نہیں پہنچائے گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ یہاں سے کوچ کرنے کا اعلان کر دیں۔ چنانچہ مسلمان کوچ کرنے لگے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سے فرمایا: تم لوگ کہو: (( لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ ، صَدَقَ وَعْدَہُ ، وَنَصَرَ عَبْدَہُ ، وَاَعَزَّ جُنْدَہُ ، وَہَزَمَ الْاَحْزَابَ وَحْدَہُ۔))… یعنی ’’اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اس نے اپنا وعدہ پورا کیا، اپنے بندہ کی مدد کی، اپنے لشکر کو عزّت بخشی، اور دشمن کے تمام گروہوں کو تنہا شکست دی۔‘‘
جب مسلمان روانہ ہوگئے اور راستہ پر لگ گئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ کہو: ہم لوگ اللہ کی طرف لوٹنے والے ہیں، اس کی طرف رجوع کرنے والے ہیں، اپنے رب کی عبادت کرنے والے ہیں، اور اس کی تعریف بیان کرنے والے ہیں۔ کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: اے اللہ کے رسول! ثقیف والوں پر بد دعا کر دیجیے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ! ثقیف والوں کو ہدایت دے، اور انہیں میرے پاس بھیج دے۔ [2]
جعرانہ میں تقسیم غنائم:
پانچ ذی القعدہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جعرانہ پہنچے جہاں اموالِ غنائم جمع کیے گئے تھے۔ سب سے پہلے اس میں سے نئے مسلمانوں کو دیا۔ ابوسفیان بن حرب رضی اللہ عنہ کو چالیس اوقیہ چاندی اور سو اونٹ دیے۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے بیٹے معاویہ کو بھی دیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں چالیس اوقیہ اور سو اونٹ دیا۔ حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کوسو اونٹ دیے تو انہوں نے دوبارہ مانگا، انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ دیا۔ نضر بن حارث بن کلدہ کو بھی سو اونٹ دیے۔ اور علاء بن حارثہ ثقفی کو پچاس اونٹ دیے، اِن کے علاوہ دوسروں کو ایک سو پچاس اونٹ کے حساب سے دیا۔ اور عباس بن مِرداس کو چالیس اونٹ دیے۔
اس داد و دہش نے اِن عرب لیڈروں اور ان کے ماننے والوں کے دل موہ لیے، اسلام سے اِن کی دلچسپی بڑھ گئی، چنانچہ آئندہ زندگی میں اِن لوگوں نے اسلام کے لیے بڑے کارہائے نمایاں انجام دیے اور اپنی جانوں اور مالوں کے ذریعہ اسلام کی خدمت کی، سوائے چند ایک کے، مثال کے طور پر عُیینہ بن حصن فزاری جس کے بارے میں امام ابن حزم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب جوامع السیرۃ میں لکھا ہے کہ یہ شخص ہمیشہ ہی اپنے ایمان وعقیدہ کے سلسلہ میں مشکوک رہا۔
|