Maktaba Wahhabi

411 - 704
چند ہی دنوں کے بعد وفات پاگئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی موت سے بہت زیادہ متأثر ہوئے۔ ابو سلمہ رضی اللہ عنہ ان مسلمانوں میں سے تھے جو ابو بکر، عثمان بن عفان اور ارقم بن ابی ارقم رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسلمان ہوئے تھے، اور بدری صحابیوں میں سے تھے، اور ان لوگوں میں سے تھے جو ہجرتِ حبشہ اور ہجرتِ مدینہ دونوں سے مشرف ہوئے تھے اور ان کے ساتھ ان کی بیوی امّ سلمہ ہند بنت ابو امیہ قُرشیہ رضی اللہ عنہ نے بھی پہلے حبشہ کی طرف پھر مدینہ کی طرف ہجرت کی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امّ سلمہ رضی اللہ عنہ سے ان کے شوہر ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد شادی کرلی، اس کی تفصیل ان شاء اللہ آگے آئے گی۔ [1] سریہ عبداللہ بن انیس جہنی: محرم سن چار ہجری کی 5/تاریخ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس خبر آئی کہ خالد بن سفیان بن نبیح الہذلی لوگوں کو جمع کررہا ہے، اور انہیں مسلمانوں کے خلاف اُبھار رہا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ کو بلایا اوران سے فرمایا: مجھے خبر ملی ہے کہ خالد بن سفیان بن نبیح میرے خلاف جنگ کرنے کے لیے لوگوں کو جمع کررہا ہے اور وہ اس وقت وادی عُرنہ میں ہے، تم جاکر اسے قتل کردو۔ عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول!مجھے اس کی کوئی نشانی بتادیجیے تاکہ اسے پہچان لوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم اسے دیکھوگے تو تم اپنے جسم میں ایک قسم کی کپکپی محسوس کروگے۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں اپنی تلوار لے کر نکل پڑا، یہاں تک کہ میں وادی عرنہ میں اس کے پاس پہنچ گیا، وہاں وہ ایک گھر میں اپنی بیویوں کے ساتھ موجود تھا، اور وہ وقت عصر کی نماز کا تھا، جب میں نے اسے دیکھا تو اپنے جسم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتانے کے مطابق ایک کپکپی محسوس کی تو میں اس کی طرف بڑھا، اور ڈرا کہ میرے اور اس کے درمیان کشمکش مجھے نماز سے مشغول نہ کردے، اس لیے میں اس کی طرف چلتا ہوا اپنے سر کے اشارے سے رکوع اور سجدے کرتا ہوا اس کے پاس پہنچ گیا، اس نے پوچھا: تم کون ہو؟ میں نے کہا: ایک عربی آدمی جس نے سنا ہے کہ تم اُس آدمی (یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) کے خلاف جنگ کے لیے لوگوں کو اکٹھا کررہے ہو، اسی لیے میں تمہارے پاس آیا ہوں، اس نے کہا: ہاں، میں اسی کام میں لگا ہوں، عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں اس کے ساتھ کچھ دیر چلتا رہا، یہاں تک کہ جب اس پر پوری طرح قدرت پالی تو اس پر تلوار سے حملہ کرکے اسے قتل کردیا، اور فوراً نکل پڑا، میں نے واپس ہوتے ہوئے دیکھا کہ اس کی بیویاں اس پر جھکی ہوئی تھیں۔ میں جب واپس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور آپؐ نے مجھے دیکھا تو فرمانے لگے، یہ چہرہ کامیاب لوٹا ہے، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے اسے قتل کردیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم سچ کہتے ہو، عبداللہ کہتے ہیں: پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ساتھ چل کر اپنے گھر میں داخل ہوئے اور مجھے ایک لاٹھی دی اور فرمایا: اے عبداللہ! اسے تم اپنے پاس رکھنا، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ نے یہ لاٹھی مجھے کیوں دی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن یہ لاٹھی میرے اور تمہارے درمیان نشانی ہوگی، بے شک قیامت کے دن اپنے نیک اعمال پر ٹیک لگانے والے یعنی بھروسہ کرنے والے سب سے کم لوگ ہوں گے۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے وہ لاٹھی اپنی تلوار کے ساتھ رکھ دی اوروہ ان کے پاس زندگی بھر رہی، یہاں تک کہ
Flag Counter