مدینہ واپس آنے کے بعد صحابہ کرام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تینوں باتیں بتائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرو رضی اللہ عنہ سے پوچھا تو انہوں نے آگ جلانے سے ممانعت کی وجہ یہ بتائی کہ میں نے یہ مناسب نہیں سمجھا کہ آگ کی روشنی میں دشمنوں کو ہماری قلتِ عدد کا اندازہ ہو جائے، اور دشمنوں کا پیچھا کرنے سے اس لیے روکا کہ شاید ان کے لیے فوجی کُمک آجائے، اور مسلمانوں کا نقصان ہو جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے فیصلوں کو سراہا، اور غسل نہ کرنے کا اُن سے سبب دریافت کیا، تو انہوں نے کہا: میں نے اللہ تعالیٰ کا یہ قول سنا ہے:
((وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا)) [النسائ: 29]
’’ اور تم اپنے آپ کو (یا ایک دوسرے کو) قتل نہ کرو، اللہ تم پر بڑا رحم کرنے والا ہے۔ ‘‘
یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے، اور کچھ نہ کہا۔ [1]
سریّہ ابو قتادہ بن ربعی انصاری رضی اللہ عنہ خُضرہ کی طرف:
یہ سریّہ سن 8 ہجری میں خُضرہ کی طرف بھیجا گیا تھا، جو نجد کے علاقہ میں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو قتادہ بن ربعیّ انصاری رضی اللہ عنہ کو پندرہ مجاہدین کے ساتھ بھیجا، اور اُن کو بنی غطفان پر حملہ کرنے کا حکم دیا، اس لیے کہ وہ لوگ اُس مقام پر مسلمانوں کے خلاف جمع ہو رہے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سے کہا تھا کہ وہ رات میں سفر کریں اور دن میں چُھپ جایا کریں، اور جب حملہ کریں تو عورتوں اور بچوں کو قتل نہ کریں۔ چنانچہ ابو قتادہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی رات کو سفر کرتے اور دن کو چُھپ جاتے، اور وہاں پہنچ کر اُن کی ایک بڑی آبادی پر حملہ کیا، اکثر کو قتل کیا، اور مالِ غنیمت حاصل کیا۔ جس میں اونٹوں کی تعداد دو سو اور بکریاں دو ہزار تھیں۔ اور اُن کے بہت سے لوگوں کو قیدی بنالیا، اور دیگر بہت سے اموالِ غنیمت پر قبضہ کر لیا۔ اور تمام اَموال کا پانچواں حصہ الگ کرکے باقی مجاہدین کے درمیان تقسیم کر دیا۔ چنانچہ ہرآدمی کو بارہ بارہ اونٹ ملے۔ یہ فوجی دستہ مدینہ سے باہر پندرہ دن رہا۔[2]
سریّہ ابو قتادہ رضی اللہ عنہ بطنِ اضَم کی طرف:
سن 8 ہجری ماہِ رمضان میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب غزوئہ مکہ کا ارادہ کیا، تو ابو قتادہ بن ربعی رضی اللہ عنہ کو آٹھ مجاہدین کے ساتھ بطنِ اضم کی طرف بھیجا (جو مکہ اور یمامہ کے درمیان مقامِ سمنیہ کے پاس پانی کی ایک جگہ ہے) تاکہ عام لوگ یہ سمجھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توجہ اسی علاقہ کی طرف ہے، اور یہ خبر لوگوں میں پھیل جائے۔
اس فوجی دستہ میں مُحلم بن جُثامہ لیثی رضی اللہ عنہ نام کے ایک صحابی تھے، انہوں نے اُس علاقہ کے عامر بن اَضبط اشجعی نامی ایک شخص کو اس کے سلام کرنے کے باوجود قتل کر دیا، اور اس کا مال ومتاع چھین لیا۔ جب یہ مجاہدین واپس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو قرآن کریم کی مندرجہ ذیل آیت نازل ہوئی:
|