پر مجبور کرنا چاہا، تو ہم اپنے دین وایمان اور اپنی جان کی حفاظت کے لیے اپنی قوم کے پاس سے بھاگ کر یہاں آگئے ہیں ۔
نجاشی نے کہا: اللہ کی قسم! یہ نور تو اسی چراغ سے نکلا ہے جس سے موسیٰ علیہ السلام کا نور نکلا تھا، جعفر نے تحیہ وسلام کے بارے میں کہا کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ اہلِ جنت کا تحیہ سلام ہے ، اور ہمیں اسی کا حکم دیا ہے۔ اس لیے ہم نے آپ کو وہی تحیہ پیش کیا ہے جو ہم لوگ ایک دوسرے کو پیش کرتے ہیں ۔ اور عیسیٰ بن مریم علیہ السلام ، اللہ کے بندہ اور اس کے رسول تھے ، اور اس کا کلمہ جسے اُس نے مریم کے اندر ڈال دیا تھا، اور اُس کی جانب سے ایک روح، اور عذراء بتول کے بیٹے تھے۔
یہ سن کر نجاشی نے ایک لکڑی اپنے ہاتھ میں لی اور کہا: اللہ کی قسم! ابن مریم اِس لکڑی کے برابر بھی اس بات سے زیادہ نہیں تھے جو تم نے کہی ہے ۔ عظمائے حبشہ کہنے لگے: بادشاہ سلامت! اگر حبشہ نے آپ کی یہ بات سُن لی تو وہ آپ کو بادشاہت سے الگ کردیں گے۔ نجاشی نے کہا: اللہ کی قسم! میں عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں اس کے سوا عقیدہ نہیں رکھتا، اور جب اللہ نے میری بادشاہت واپس کرائی تھی، اُس وقت اس باری تعالیٰ نے میرے سلسلہ میں لوگوں کی بات نہیں مانی تھی، تاکہ آج میں اُس کے دین کے بارے میں لوگوں کی بات مانوں ۔
ابن اسحاق کی ایک روایت میں آیا ہے کہ جب جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے سورۂ مریم کی ابتدائی آیتوں کی تلاوت کی، تو نجاشی رونے لگا، یہاں تک کہ اُس کی داڑھی آنسوؤں سے سے تر ہوگئی، اور اس کے پاس بیٹھے پادری بھی روتے رہے ، یہاں تک کہ اُن کے سامنے رکھی کُتبِ اناجیل ان کے آنسوؤں سے بھیگ گئیں ، پھر نجاشی نے کہا: یہ روشنی تو اسی چراغ سے نکلی معلوم ہوتی ہے ، جس سے وہ نور نکلا تھا جسے موسیٰ علیہ السلام لے کر آئے تھے ۔ تم لوگ یہاں سے شرافت کے ساتھ چلے جاؤ۔ اللہ کی قسم! میں اِن مسلمانوں کو تمہارے ساتھ واپس بھیج کر تمہیں خوش نہیں ہونے دوں گا۔
پھر مسلمانوں سے مخاطب ہوکر کہا: تم لوگ سکون واطمینان کے ساتھ جہاں چاہو ہمارے ملک میں رہو۔ اور اپنے لوگوں سے کہا: اِن کے تحفے واپس کردو، مجھے ان کی ضرورت نہیں ۔ اور دونوں قاصدوں (عمرو بن العاص اور عبداللہ بن اَبی ربیعہ) سے کہا:تم دونوں میرے ملک سے نکل جاؤ۔ چنانچہ وہ ذلیل وخوار ہوکر اپنے تحفے لیے وہاں سے واپس چلے گئے۔ امّ سلمہ رضی اللہ عنھا کہتی ہیں : اِس کے بعد ہم سب ایک بہترین ملک میں بہترین پڑوسیوں کے ساتھ رہنے لگے۔[1]
قریش مکہ کے نمائندوں کی ناکام واپسی:
اللہ تعالیٰ نے مشرکینِ قریش کی امیدوں پر پانی پھیر دیا، اور وہ ذلیل وخوار اور خائب وخاسر ہوکر بیٹھ گئے ، اور واپس آنے کے بعد ذلت وخواری کے ساتھ اپنے گھر میں روپوش ہوگئے ، اور اہل قریش سے ملاقات نہیں کی۔ اور جب اُن سے پوچھا گیا تو کہنے لگے کہ بنو اصحمہ کا خیال ہے کہ محمد نبی ہے، اور ہمارے جو لوگ دین سے برگشتہ ہوکر اُس کے پاس پناہ گزیں ہیں ، وہ بہت ہی اچھی حالت میں اور سکون وراحت کے ساتھ ہیں۔
|