ضرور آکر اُن کے اور آپؐ کے درمیان کھڑا رہوں گا، تاکہ وہ لوگ دھوکہ دے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ نہ کر دیں۔ میں نے پھر سوچا: شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُن کے ساتھ سرگوشی کر رہے ہیں۔ میں آیا اور کھڑا ہوگیا، اُس وقت میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے چار کلمات سیکھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ جزیرہ عرب سے جنگ کروگے اور اللہ فتح نصیب کرے گا، پھر فارس سے جنگ کرو گے اور اللہ تعالیٰ فتح نصیب کرے گا، پھر رُوم سے جنگ کروگے اور اللہ تعالیٰ فتح نصیب کرے گا، پھر دجّال سے جنگ کرو گے اور فتح نصیب ہوگی۔ [1]
6۔ سرزمینِ حجاز سے آگ نکلنا:
امام بخاری ومسلم رحمہم اللہ نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت اُس وقت تک نہیں آئے گی جب تک سر زمینِ حجاز سے ایک آگ نہ نکلے جو بُصریٰ میں موجود اونٹوں کی گردنوں کو روشن کردے گی۔ [2]
یہ آگ تین جمادی الآخرۃ بُدھ کی رات میں نماز عشاء کے بعد سن 654 ہجری میںظاہر ہوئی، اور جمعہ کے دن چاشت کے وقت تک باقی رہی، پھر دھیمی پڑ گئی، جیسا کہ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں قرطبی رحمہ اللہ کی کتاب التذکرہ کے حوالہ سے نقل کیا ہے۔ اسے تمام لوگوں نے دیکھا، اور دیکھا کہ اس نے بُصریٰ کے اونٹوں کی گردنوں کو روشن کردیا، یہ آگ پتھروں کو جلا دیتی تھی، اور گوشت کو پکادیتی تھی۔
7۔ چاند کے دو ٹکڑے ہونا:
اللہ تعالیٰ نے اپنی کتابِ عزیز میں چاند کے دو ٹکڑے ہونے کی خبر دی ہے، جب مشرکوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک نشانی مانگی تھی، اور رات کا وقت تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاند کی طرف اشارہ کیا اور اس کے دو ٹکڑے ہوگئے، اِس معجزہ کو تمام لوگوں نے دیکھا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اِس سورۃ کو بڑے مجمعوں میں پڑھتے رہے، جیسے جمعہ اور عیدین کے دنوں میں ، تاکہ لوگ اس میں مذکور نشانیوں اور دلیلوں میں غور کریں اور عبرت حاصل کریں۔ مقصود یہ ہے کہ تمام لوگ اسے سنتے رہے، اس کا اقرار کرتے رہے، اور کسی نے اس کا انکار نہیں کیا۔
امام بخاری ومسلم نے سیّدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ اہلِ مکہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُن کو کوئی نشانی دکھائیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاند کے دو ٹکڑے کرکے انہیں دکھایا، دونوں کے درمیان جبل حِراء حائل تھا۔ [3] امام بخاری رحمہ اللہ نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں چاند کے دو ٹکڑے ہوگئے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم سب دیکھ لو۔ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اپنی روایت میں یہ اضافہ کیا ہے، تب یہ آیتیں نازل ہوئیں:
((اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانشَقَّ الْقَمَرُ ﴿1﴾ وَإِن يَرَوْا آيَةً يُعْرِضُوا وَيَقُولُوا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ)) [القمر:1-2]
’’ قیامت قریب آگئی، اور چاند پھٹ گیا۔ اور کفار اگر کوئی نشانی دیکھتے ہیں تو منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ایک جادو ہے جو پہلے سے چلا آرہا ہے۔ ‘‘
|