واپس جانے لگی۔ کہا جاتا ہے کہ ایک ایک دن میں یہ لوگ کئی کئی میل کا سفر کرتے تھے، انہیں یقین تھا کہ مسلمان ان کا پیچھا کریں گے، اوران پر حملہ کرنے کی کوشش کریں گے، گویا اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں مسلمانوں کا رعب ڈال دیا تھا۔
کفارِ قریش خائب وخاسر مکہ واپس لوٹے، سوائے انتقام کی پیاس بجھانے کے اور کوئی کامیابی ان کو حاصل نہیں ہوئی، نہ انہیں کوئی مالِ غنیمت حاصل ہوا، جو ان کے لیے دلیل بنتا کہ وہ غزوۂ احد سے کامیاب لوٹے ہیں اور نہ ان کے ہاتھوں میں کوئی ایک بھی مسلمان قیدی تھا، تاکہ عربوں میں اعلان کرتے کہ وہ زیادہ طاقتور ہیں اور مسلمانوں پر غلبہ حاصل کرکے لوٹے ہیں، بلکہ اس کے برعکس ان کی فوج کی ایک بڑی تعداد مسلمانوں کی تلواروں اور نیزوں سے قتل کردی گئی۔
ابن اسحاق نے لکھا ہے کہ مقتول مشرکین کی تعداد بائیس تھی، اورایک دوسرے قول کے مطابق ان کی تعداد سینتیس(37) تھی۔
صاحب اتحاف الوریٰ نے لکھا ہے کہ پہلامشرک جو غزوۂ احد اور مشرکوں کے نامراد لوٹنے کی خبر لے کر مکہ پہنچا وہ عبداللہ بن امیہ بن مغیرہ تھا، اس نے اچھا نہیں سمجھا کہ اہلِ قریش کی شکست کی خبر لوگوں کو اسی کے ذریعہ ملے، اس لیے وہ چپکے سے طائف چلاگیا اوروہاں سے اس نے خبر بھیجی کہ اصحابِ محمد جیت گئے ہیں، اور ہم شکست کھاگئے ہیں ۔ [1]
علی رضی اللہ عنہ مشرکوں کی شکست کی خبرلے کر آتے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکوں کے مکہ لوٹ جانے کی خبر کا اطمینان کرنے کے لیے علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ کو یہ حکم دیا کہ وہ کافروں کے پیچھے جائیں اور دیکھیں کہ وہ کیا کرتے ہیں اور کیا چاہتے ہیں ؟ اگر وہ گھوڑوں کے بجائے اونٹوں پر سوار ہوتے ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ مکہ لوٹ رہے ہیں، اور اگر گھوڑوں پر سوار ہوتے ہیں اور اونٹوں کو ہانک رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ مدینہ پر حملہ کرنا چاہتے ہیں۔ اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر انہوں نے ایسا سوچاتو میں مدینہ میں ان کا مقابلہ کروں گا۔ علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں ان کے پیچھے نکلا تاکہ دیکھوں وہ کیا کرتے ہیں تو وہ گھوڑوں کے بجائے اونٹوں پر سوار ہوئے، اور مکہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ [2]
شہدائے احد کی تدفین:
مشرکینِ مکہ جب میدانِ معرکہ سے نکل کر مکہ کی طرف چل پڑے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہداء کو دفن کرنے کا حکم دیا، جن کی تعداد ستر تھی، جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو دو شہداء کوایک کپڑے کا کفن دیتے تھے، پھر فرماتے تھے کہ اِن میں قرآن کا علم کس نے زیادہ حاصل کیا تھا، اورجب کسی ایک کی طرف اشارہ کیا جاتاتو آپ اسے لحد میں مقدم کرتے اور کہتے کہ میں قیامت کے دن ان سب کا گواہ بنوں گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام شہداء کو ان کے خون کے ساتھ دفن کرنے کا حکم دیا، نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نمازِ جنازہ پڑھی اور نہ انہیں غسل دیا گیا۔ [3]
|