اُن کے بعد جھنڈا ثابت بن اَقرم رضی اللہ عنہ نے سنبھال لیا اور کہا: اے مسلمانو! ہم لوگ اپنے درمیان سے ایک آدمی پر اتفاق کر لیں۔ لوگوں نے کہا: ہم لوگ تمہیں اپنا قائد مانتے ہیں۔ انہوں نے کہا: یہ کام مجھ سے نہیں ہوگا۔ پھر تمام مسلمان خالد بن ولید رضی اللہ عنہ پر متفق ہوگئے۔ جب انہوں نے جھنڈا لیا تو مسلمان تتر بتر ہوچکے تھے اور اُن کی معنوی قوت کمزور ہو چکی تھی۔ خالد رضی اللہ عنہ ماہر وتجربہ کار قائد تھے، انہوں نے فوراً مسلمانوں کی صفوں کو ایک دوسرے سے ملایا، اور سارا دن شدید جنگ کرتے رہے۔ دوسرے دن انہوں نے ایک زبردست مضبوط جنگی پلان نافذ کیا، اور اسلامی فوج کی ایک بڑی تعداد کو ایک طویل لائن کی شکل میں فوج کے آخری حصّہ میں لے جاکر منظم کیا، اور انہیں حکم دیا کہ صبح کے وقت پوری قوت کے ساتھ شور وشغب مچائیں۔ انہوں نے ایسا ہی کیا، اور نتیجہ کے طور پر دشمنوں کے دل مارے خوف کے کانپنے لگے۔ خالد رضی اللہ عنہ نے یہ بھی کیا کہ فوج کی جگہ بدل دی، دشمنوں نے سمجھا کہ مسلمانوں کے لیے مدینہ سے امدادی فوج آگئی ہے۔ ایک گھنٹہ تک دشمنوں کے ساتھ مڈبھیڑ کے بعد خالد رضی اللہ عنہ نہایت ہوشیاری اور نظام کی پابندی کے ساتھ فوج کو پیچھے لے جانے لگے، اور رومیوں نے اُن کا پیچھا نہیں کیا، وہ سمجھتے رہے کہ مسلمان کوئی چال چل رہے ہیں اور ان کو صحرا میں دھکیل دینے کی کوشش کررہے ہیں، اسی لیے مسلمانوں پر حملہ نہیں کیا، بلکہ مارے رُعب وخوف کے خوش ہوئے کہ مسلمانوں نے اُن پر حملہ نہیں کیا اور واپس مدینہ چلے گئے۔ اس جنگی مہارت وتجربہ کے ذریعہ خالد رضی اللہ عنہ نے اسلامی فوج کو ایک افسوسناک انجام سے بچالیا، اور واپس مدینہ منورہ چلے آئے، اور اُن کے صرف بارہ آدمیوں نے جام شہادت نوش کیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں صحابہ کرام کو زید، جعفر اور ابن رواحہ رضی اللہ عنھم کی شہادت کی خبر فوج کی واپسی سے پہلے سناتے ہوئے فرمایا: پہلے جھنڈا زید نے لیا، اور کام آگئے، پھر جعفر نے لیا اور کام آگئے، پھر ابن رواحہ نے لیا اور وہ بھی شہید ہوگئے۔ خبر سناتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے، پھر فرمایا: تینوں کے بعد جھنڈا اللہ کی ایک تلوار نے سنبھالا، اور اللہ نے اُن کے ہاتھوں پر مسلمانوں کو فتح عطا کی۔ [1]
اور قیس بن اَبی حازم رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کی ہے کہ میں نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا: غزوئہ مؤتہ میں نو تلواریں میرے ہاتھ میں ٹوٹ گئیں، میرے ہاتھ میں صرف یمن کی لوہے کی بنی ہوئی ایک چادر رہ گئی۔ [2]
معرکہ میں مسلمان ہی فتح یاب ہوئے:
معرکۂ مؤتہ کے بارے میں مؤرخین مغازی وسیر تین قسموں میں بٹے ہوئے نظر آتے ہیں، بعض نے کہا ہے کہ مسلمانوں کو اس معرکہ میں شکستِ فاش کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ رائے بالکل غلط ہے۔ ابن سعد نے اپنی کتاب ’’الطبقات ‘‘ میں اِس قول کا ذکر کیا ہے۔ اور بعض نے کہا ہے کہ دونوں ہی فوجیں ایک دوسرے سے الگ ہوگئیں۔ معرکہ کی ظاہری تفصیلات کے پیش نظر یہ رائے صائب معلوم ہوتی ہے۔
اور راجح قول یہ ہے کہ رومیوں کو شکست ہوئی اور مسلمانوں کو فتح وکامرانی۔ واقدی، زہری، بیہقی اور ابن کثیررحمۃ اللہ علیہم
|