Maktaba Wahhabi

716 - 704
درخواست کریں گے کہ آپ رب العالمین کے حضور اُن کے لیے شفاعت کر دیں تاکہ وہ اُن کے درمیان فیصلہ کر دے اور انہیں اس پریشانی وبدحالی سے نجات دے دے جس میں سب میدانِ محشر میں مبتلا ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ((عَسَىٰ أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا)) [الإسرائ: 79] ’’ امید ہے کہ آپ کا رب آپ کو ’’مقام محمود‘‘ پر پہنچا دے گا۔ ‘‘ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر میں ابن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت کی ہے کہ لوگ قیامت کے دن گُھٹنوں کے بل چلیں گے، ہرامت اپنے نبی کے پاس آئے گی اور کہے گی: اے فلاں! ہمارے لیے شفاعت کیجیے، اے فلاں! ہمارے لیے شفاعت کیجیے، بالآخر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب کے لیے شفاعت کریں گے، یہی وہ دن ہوگا جب اللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مقامِ محمود عطا فرمائیں گے۔ [1] معلوم ہوا کہ مقامِ محمود سے مراد مقامِ شفاعت ہے۔ سیّدناابنِ عمر رضی اللہ عنھما کی ایک دوسری روایت میں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن آفتاب اتنا قریب آجائے گا کہ لوگوں کے پسینے نصف کان تک پہنچ جائیں گے۔ اُس وقت سب لوگ آدم علیہ السلام سے مدد مانگیں گے، پھر موسیٰ علیہ السلام سے پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے۔ راوی عبداللہ بن یوسف نے اضافہ کیا ہے: مجھ سے لیث نے اور اُن سے ابن ابی جعفر نے حدیث بیان کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شفاعت کریں گے تاکہ مخلوق کے درمیان فیصلہ کر دیا جائے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چل کر جائیں گے، دروازہ کی کُنڈی پکڑ لیں گے، اُس دن اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مقامِ محمود پر پہنچا دیں گے جس کی تمام اہلِ محشر تعریف کریں گے۔ [2] یہی وہ مقامِ محمود ہے جس کے بارے میں نبیِّ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص اذان سننے کے بعد کہے گا: (( أَللّٰہُمَّ رَبَّ ہٰذِہِ الدَّعْوَۃِ التَّامَّۃِ وَالصَّلَاۃِ الْقَائِمَۃِ، آتِ مُحَمَّدَانِ الْوَسِیْلَۃَ وَالْفَضِیْلَۃَ، وَابْعَثْہُ مَقَامًا مَّحْمُوْدَانِ الَّذِيْ وَعَدتَّہٗ۔)) … ’’اے اللہ!اِس مکمل دعوت اور (قیامت تک) قائم رہنے والی نماز کے رب! محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو (جنت کا) درجۂ وسیلہ اور فضیلت عطا فرما، اور انہیں اُس مقامِ محمود پر پہنچا دے جس کا تونے اُن سے وعدہ کیا ہے‘‘ قیامت کے دن اس کے لیے میری شفاعت واجب ہو جائے گی۔ (بخاری) 5 ۔ بعثتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی عمومیت: گزشتہ زمانوں میں انبیائے کرام کی بعثت صرف اُن کی قوموں کے لیے ہوتی تھی، لیکن ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام بنی نوعِ انسان کے لیے مبعوث کیے گئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ((قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّـهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا)) [الأعراف: 158] … ’’ آپ کہہ دیجیے کہ اے لوگو! میں تم سب کے لیے اللہ کا رسول ہوں۔ ‘‘ اور فرمایا ہے: ((وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِّلنَّاسِ)) [سبأ:28]… ’’ اور ہم نے آپ کو تمام بنی نوعِ انسان کے لیے خوشخبری دینے والا بناکر بھیجا ہے۔ ‘‘ نیز فرمایا ہے: ((لِأُنذِرَكُم بِهِ وَمَن بَلَغَ ۚ)) [الأنعام: 19] … ’’ تاکہ اس کے ذریعہ تمہیں اور ہر اس شخص کو ڈراؤں جس تک اس قرآن کا پیغام پہنچے۔ ‘‘ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو تمام جنوں کے لیے بھی مبعوث ہوئے جیسے تمام انسانوں کے لیے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ((وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ)) [الأنبیائ: 107] … ’’ اور ہم نے آپ کو سارے
Flag Counter