ابو داؤد کی ایک روایت میں ہے کہ جب یہ شخص مرگیا تو اس کا بیٹا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! عبداللہ بن اُبی (میرا باپ) مرگیا، آپ اپنی قمیص مجھے عطا کر دیجیے تاکہ میں اسے اس کا کفن پہنا دوں چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قمیص اسے دے دی۔ [1]
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنھما نے اس کا سبب یہ بیان کیا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قمیص اس لیے دے دی کہ جب عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ آئے تو انصار نے اُن کے لیے ایک قمیص تلاش کی، اور تلاشِ بسیار کے بعد اُن کے سائز کی قمیص صرف عبداللہ بن اُبَیّ کے پاس ملی، اور انصار نے اس سے وہ قمیص لے کر عباس رضی اللہ عنہ کو پہنائی تھی۔ [2]
ابن عمر رضی اللہ عنھما نے روایت کی ہے کہ جب عبداللہ بن اُبی بن سلول مرا، تو اس کے بیٹے عبداللہ بن عبداللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کی قمیص مانگی تاکہ وہ اس میں اپنے باپ کو دفن کریں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں دے دی، انہوں نے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی نمازِ جنازہ پڑھنے کی درخواست دی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے کھڑے ہوگئے۔ اُس وقت عمر رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن پکڑ لیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! آپ اس کی نمازِ جنازہ کیسے پڑھیں گے، اللہ نے تو آپ کو اس سے منع فرمایا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے اللہ نے اختیار دیا ہے، کہا ہے:
((اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِن تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً فَلَن يَغْفِرَ اللَّـهُ لَهُمْ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّـهِ وَرَسُولِهِ ۗ وَاللَّـهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ)) [التوبہ:80]
’’ آپ ان کے لیے مغفرت کی دعا کیجیے یا نہ کیجیے (برابر ہے) اگر آپ ان کے لیے ستر بار بھی مغفرت کی دعا کریں گے تب بھی اللہ انہیں معاف نہیں کرے گا۔ ‘‘
اگر مجھے علم ہو کہ ستر مرتبہ سے زیادہ طلب مغفرت پر اس کی بخشش ہو جائے گی تو میں ستر (70) بار سے زیادہ اس کے لیے طلبِ مغفرت کروں گا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ تو منافق تھا۔ بہر حال اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نمازِ جنازہ پڑھی تو اللہ عزوجل نے فرمایا:
{وَلَا تُصَلِّ عَلٰٓی اَحَدٍ مِّنْہُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَا تَقُمْ عَلٰی قَبْرِہٖ۔} [التوبہ:84]
’’ اور ان میں سے جو کوئی مرجائے اس کی نمازِ جنازہ نہ پڑھیے اور اس کی قبر کے پاس نہ کھڑے ہوئیے۔ ‘‘[3]
اعلانِ براء ت:
سن 9 ہجری کا موسمِ حج قریب آگیا، اور مشرکین اب تک اپنے بُتوں کی پرستش سے باز نہیں آئے تھے۔ سن 8 ہجری میں تو مشرکین نے مسلمانوں کے ساتھ حج کیا، لیکن نہ اپنے شرکیہ اعمال سے باز آئے، نہ ہی ننگے ہو کر طوافِ کعبہ کرنے سے انہیں شرم آئی، جبکہ سب کو یہ بات واضح طور پر معلوم ہوگئی تھی کہ اسلام جلد از جلد جزیرہ عرب کو بُت پرستی سے پاک کرنا چاہتا ہے،
|