اور بنو عبدمناف کچھ کرنے سے قاصر رہیں۔ اس لیے کہ تمام قبائل کی دشمنی مول لینا ان کے لیے ممکن نہ ہوگا، اور ہم انہیں اس کی دیت دے دیں گے۔
بڈھے ابلیس نے کہا: اس نوجوان نے کمال کیا ہے ،یہی صحیح رائے ہے ، اس کے بعد سب لوگ اسی بات پر اتفاق کرکے اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے، اور جبریل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ان کے ربّ کی طرف سے وحی لے کر آئے ، اور انہیں اس سازش کی اطلاع دی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اس رات آپ اپنے بستر پر نہ سوئیں۔ [1]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو پہر کی چلچلاتی دھوپ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس اپنے چہرہ پر نقاب ڈالے پہنچے، اور ان سے کہا: آپ کے پاس جو لوگ ہیں، انہیں ہٹ جانے کو کہیے، سیّدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ ! یہ سب آپ کے گھر والے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے اللہ نے یہاں سے نکل جانے کی اجازت دے دی ہے، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ! کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں آپ کے ساتھ نکلوں ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں ۔ عائشہ رضی اللہ عنھا کہتی ہیں : اللہ کی قسم ! اس دن سے پہلے میں نہیں جانتی تھی کہ کوئی خوشی کے مارے بھی روتا ہے ، یہاں تک کہ میں نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کو روتے ہوئے دیکھا، پھر ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ، آپ میری ان دوسواریوں میں سے ایک لے لیجیے ، میں نے انہیں اسی دن کے لیے تیار کیا تھا، تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : قیمت کے ذریعہ لوں گا۔
جب رات کی تاریکی گہری ہوئی تو نوجوانانِ قریش آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر جمع ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوجانے کا انتظار کرتے رہے، تاکہ وہ سب یکبارگی آپ پر ٹوٹ پڑیں۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب کو دیکھا تو علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ سے کہا: تم میرے بستر پر سوجاؤ، اور میری یہ حضرمی سبز چادر اوڑھ لو، اور بے خوف سوجاؤ، یہ لوگ تمہیں ہرگز نقصان نہیں پہنچاپائیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوتے تو چادر اوڑھ کر سوتے۔
ابو جہل نے ان نوجوانوں سے کہا، جب وہ آپ کے دروازے پر تھے: محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا گمان ہے کہ اگر تم اس کی پیروی کروگے تو عرب وعجم کے بادشاہ ہوجاؤگے، اور مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جاؤگے تو تمہیں اُردن کے باغات کی مانند باغات ملیں گے، اور اگر تم نے ایسا نہیں کیا تو تمہیں ذبح کردیا جائے گا، پھر مرنے کے بعد جب دوبارہ زندہ اٹھائے جاؤگے تو تمہارا ٹھکانا جہنم ہوگاجس میں تم جلائے جاؤگے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے نکلے تو اپنے ہاتھ میں ایک مُشت مٹی لی اور کہا: ہاں ، میں یہ بات کہتا ہوں اورتم ان میں سے ایک ہو، اور اللہ نے ان کی قوتِ بصارت چھین لی ، اس لیے وہ سب آپ کو دیکھ نہیں پارہے تھے، آپ ان کے سروں پر اس مٹی کو ڈال رہے تھے اور یہ آیت تلاوت فرمارہے تھے :
((وَجَعَلْنَا مِن بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا فَأَغْشَيْنَاهُمْ فَهُمْ لَا يُبْصِرُونَ)) [یسٓ:9]
’’اور ہم نے ایک دیوار ان کے آگے اور ایک دیوار ان کے پیچھے کھڑی کردی ہے، پس ہم نے انہیں ہر طرف سے ڈھانک دیا ہے، اس لیے اب وہ کچھ بھی نہیں دیکھ پاتے ہیں۔‘‘
|