کے سائے میں ایک چادربچھائی جاتی تھی، جس کے ارد گرد اُن کے بیٹے بیٹھ کر اُن کا انتظار کرتے تھے، اور اُن کے غایتِ احترام میں اُن کا کوئی بیٹا اُس چادرپر نہیں بیٹھتا تھا، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آتے اور اس پر بیٹھ جاتے (اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک صحت مند اور بھاری بدن کے لڑکے تھے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرات انہیں پکڑ کر چادرسے ہٹانے لگتے تو عبدالمطلب کہتے : میرے بیٹے کو چھوڑ دو، اللہ کی قسم! یہ بڑی شان والا ہوگا۔ پھر آپ کو اپنے ساتھ اس چادرپر بٹھالیتے، اور اپنا ہاتھ آپ کی پیٹھ پر پھیرتے۔ عبدالمطلب کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر حرکت واَداسے خوشی ہوتی تھی۔ [1]
طبرانی ، بیہقی ، ابن سعد اور دیگر مؤرخین نے کندیر بن سعید سے اُن کے باپ کے حوالہ سے روایت کی ہے، وہ کہتے ہیں : میں نے جاہلیت میں حج کیا تو ایک آدمی کو طواف کی حالت میں ایک شعر پڑھتے سنا :
اے میرے رب ! میرے سوار محمد کو لوٹا دے
اُسے میرے پاس لوٹا کر مجھ پر احسان کر دے
میں نے کہا: اس کی مراد کیا تھی؟ اس نے کہا: عبدالمطلب بن ہاشم کے کچھ اونٹ کہیں نکل گئے ، انہوں نے اپنے پوتے کو ان کی تلاش میں بھیجا، انہیں کچھ دیر ہوگئی۔ اور اس سے پہلے عبدالمطلب نے جب بھی کسی کام کے لیے ان کو بھیجا تو اسے کرکے فوراً واپس آگئے۔ راوی کہتے ہیں : کچھ ہی دیر کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اونٹوں کو لے کر واپس آگئے ،تو عبدالمطلب نے کہا: اے میرے بیٹے! میں تمہارے لیے عورت کی طرح حزین وغمگین ہوگیا تھا، مجھ سے کبھی الگ نہ رہو۔ [2]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق، جب آپ اپنے دادا کی کفالت میں تھے، اہم ترین خبروں میں سے ایک یہ خبر بھی ہے کہ بنی مدلج کے کچھ قیافہ شناس مکہ آئے، انہوں نے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا،تو آپ کے دادا سے کہا: اس کی خوب نگرانی کرتے رہیے، ہم نے اس بچے کے قدم کے سوا مقام ِابراہیم میں موجود قدم سے زیادہ مشابِہ کبھی کوئی قدم نہیں دیکھا۔ عبدالمطلب نے ابوطالب سے کہا: یہ لوگ جو کہہ رہے ہیں اسے غور سے سنو! اور اس کی پوری طرح حفاظت کرتے رہو۔ اُس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر تقریباً سات سال تھی۔ [3]
عبدالمطلب نے لمبی عمر پائی ۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی وفات ایک سو بیس سال کی عمر میں ہوئی، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آٹھ سال کے ہوئے تو ان کی وفات ہوگئی۔ مقبرۂ حجون میں دفن کردیے گئے۔ انہوں نے اپنی وفات سے پہلے یہ مناسب سمجھا کہ اپنے پوتے کی کفالت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب کے ذمے لگادیں، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد عبداللہ کے سگے بھائی تھے۔
****
|