Maktaba Wahhabi

198 - 704
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما کہتے ہیں : میں نے ان تمام کو جنگ ِبدر میں مقتول دیکھا ، پھر انہیں گھسیٹ کر کنویں میں ڈال دیا گیا ، سوائے اُبی بن خلف یا اُمیہ بن خلف کے ، وہ بھاری جسم کا آدمی تھا، گھسیٹے جانے سے اس کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے۔ [1] اس عقبہ بن ابی معیط ملعون نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گلا گھونٹ کر آپؐ کو ہلاک کردینا چاہا، اس واقعے کی تفصیل یہ ہے کہ ایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حِجر کعبہ میں نماز پڑھ رہے تھے کہ وہاں اچانک یہ شخص آگیا، اور اپنا کپڑا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن میں ڈال دیا، اور پوری قوت سے آپؐ کا گلا گھونٹنے لگا۔ اسی وقت وہاں سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آگئے، اور عقبہ کا مونڈھا پکڑ کر آپؐ سے الگ کردیا، اور کہا: کیا تم لوگ ایک آدمی کو اس لیے قتل کردینا چاہتے ہو کہ وہ کہتا ہے: میرا رب اللہ ہے۔ [2] یہ عقبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پڑوسی تھا اور ابو لہب کے ساتھ مل کر آپ کے خلاف سازش کرتا تھا، اس نے ایک بار زعمائے قریش کو بلایا۔ ان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تھے، آپ نے قسم کھاکر اس سے کہا کہ جب تک وہ اللہ پر ایمان نہیں لائے گا، آپ کھانا نہیں کھائیں گے، تو اس نے کلمۂ شہادت پڑھ لیا۔ جب یہ خبر اُبی بن خلف کو ملی جو اس کا دوست تھا تو اس نے اس سے کہا: میرے لیے تمہارا دیکھنا حرام ہے ، جب تک کہ تم محمدؐ سے مل کر اس کی گردن کو روند نہیں دوگے، اس کے چہرے پر تھوک نہیں دوگے اور اس کی آنکھ پر گھونسا نہیں ماروگے، چنانچہ اس ملعون نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایسا ہی کیا، تو اللہ تعالیٰ نے ان آیات کا نزول فرمایا: ((وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَىٰ يَدَيْهِ يَقُولُ يَا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا ﴿27﴾ يَا وَيْلَتَىٰ لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيلًا ﴿28﴾ لَّقَدْ أَضَلَّنِي عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ إِذْ جَاءَنِي ۗ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِلْإِنسَانِ خَذُولًا)) [الفرقان:27-29] ’’اور جس دن ظالم آدمی (مارے افسوس کے) اپنے دونوں ہاتھ کاٹے گا، کہے گا:اے کاش! میں رسول کی راہ پر چلا ہوتا،ہائے افسوس! کاش میں نے فلاں کو اپنا دوست نہ بنایا ہوتا، جس نے میرے پاس قرآن آجانے کے بعد اسے قبول کرنے سے مجھے بہکا دیا، اور شیطان کا کام انسان کو رسوا کرنا ہی ہے ۔‘‘ [3] اور انہی میں سے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کا باپ عاص بن وائل تھا، جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سخت ترین دشمن تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑایا کرتا تھا اور موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کا انکار کرتا تھا، کہتا تھا کہ محمدؐ نے اپنے ساتھیوں کو یہ کہہ کر دھوکے میں رکھا ہے کہ وہ موت کے بعد دوبارہ زندہ کیے جائیں گے، اللہ کی قسم! ہمیں تو زمانہ ہلاک کردے گا، اور ہم مٹی میں گل کر ختم ہوجائیں گے ۔ خبّاب ابن الأرت رضی اللہ عنہ کا اس کے ذمے قرض تھا ، انہوں نے اس سے مطالبہ کیا ، تو کہنے لگا کہ کیا محمدؐ کا یہ خیال نہیں ہے کہ جنت میں اہلِ جنت کو ان کی خواہش کے مطابق سب کچھ ملے گا؟ خباب رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں ، تو اس نے کہا: پھر مجھے اس دن تک کے لیے مہلت دے دو۔ مجھے جب اس دن مال واولاد کا کثیر حصہ ملے گا تو تمہارا قرض چکا دوں گا۔ اس
Flag Counter