امام بیہقی نے اپنی سند کے ذریعہ ابو اسحاق سے روایت کی ہے کہ ایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابوجہل اور ابوسفیان کے پاس سے گزرے تو ابوجہل نے کہا: اے بنی عبدشمس! یہ ہے تم لوگوں کا نبی، ابو سفیان نے کہا: تمہیں ہم میں سے ایک نبی مبعوث ہونے پر تعجب ہے ، حالانکہ نبی تو ہم لوگوں سے کم حسب ونسب اور کم عزت وشرف والوں میں ہوتا رہا ہے، ابوجہل نے کہا: مجھے تعجب ہے کہ بڑی عمر والے لوگوں کے ہوتے ہوئے ایک لڑکا نبی ہونے کا دعویٰ کررہا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں کی یہ بات سن رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آئے اور کہا: اے ابوسفیان ! تمہاری ناراضی اللہ اور اس کے رسول کے لیے نہیں تھی ، بلکہ تم اپنے قبیلہ اور خاندان کی حمیت میں ناراض ہو رہے تھے ، اور تم اے ابوالحکم!اللہ کی قسم! بہت کم ہنسوگے اور بہت زیادہ روؤگے۔ ابو جہل نے کہا: اے میرے بھتیجے! تم اپنی نبوت کے ذریعہ مجھے بہت بُری دھمکی دے رہے ہو۔
او رایک دن تو ابوجہل ملعون نے اپنے حسد اور کبر وغرور کا پردہ فاش کرہی دیا، جب اس کے پاس اخنس بن شریک آیا اور کہنے لگا: اے ابوالحکم! آپ نے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو قرآن پڑھتے سُنا ہے، اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ اس نے کہا: تمہیں کیا بتاؤں ، ہم میں اور بنوعبدمناف میں عزت وشرف کے لیے مقابلہ ہوا، انہوں نے لوگوں کو کھانا کھلایا تو ہم نے بھی کھلایا، انہوں نے لوگوں کا بار اُٹھایا تو ہم نے بھی اُٹھایا، اور انہوں نے لوگوں کو اپنا مال دیا تو ہم نے بھی دیا، یہاں تک کہ ہم دونوں ایک دوسرے کے برابر چلتے رہے، بالآخر انہوں نے کہا کہ ہم میں سے ایک نبی مبعوث ہوا ہے جس کے پاس آسمان سے وحی آتی ہے، تو ہم اس جیسی عزت وشرف کا مقابلہ کیسے کرسکتے ہیں؟ اس لیے اللہ کی قسم! ہم اس پر کبھی بھی ایمان نہیں لائیں گے، اور اس کی کبھی تصدیق نہیں کریں گے۔ [1]
اور انہی اکابر مجرمینِ قریش میں سے ملعون ابولہب بن عبدالمطلب تھا، یہ شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت میں بہت سے دور کے رشتہ داروں سے بھی بڑھ چڑھ کر تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف سازشوں میں اس کی بھینگی بیوی امّ جمیل بنت حرب بن اُمیہ پورے طور پر ساتھ دیتی تھی۔ امام بیہقی نے سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت کی ہے کہ یہ بدبخت عورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ میں کانٹے بچھا دیتی تھی ، تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کرام کے قدموں میں چبھ جائیں ، یہ دلیل تھی اس بات کی کہ یہ عورت غایت درجہ کمینی اور خسیس تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اس کا بغض انتہاء کو پہنچا ہوا تھا، اور ابھی کچھ پہلے ابولہب، اس کی بیوی اور اس کے دونوں لڑکوں کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بدترین معاملے کا ذکر گزر چکا ہے۔
اور انہی میں عقبہ بن ابی معیط تھا ،جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ پر اونٹ کی اوجھری ڈال دی ،جب آپ مسجد حرام میں نماز پڑھ رہے تھے اور قریش کے کچھ لوگ آس پاس بیٹھے یہ سب کچھ دیکھتے رہے ، آپؐ سجدے میں گرے رہے، یہاں تک کہ آپ کی چھوٹی بیٹی سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا آئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ سے اس اوجھری کو الگ کیا۔ اُس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی کہ اے اللہ ! قریش کے ان سرداروں سے تو نمٹ لے۔ اے اللہ! تو عتبہ بن ربیعہ سے نمٹ لے، اے اللہ ! تو شیبہ بن ربیعہ سے نمٹ لے، اے اللہ! تو ابوجہل بن ہشام سے نمٹ لے، اے اللہ ! تو عقبہ بن ابی معیط سے نمٹ لے ، اور اے اللہ! تو اُبی بن خلف سے نمٹ لے۔ اور ایک روایت میں اُبی کے بجائے اُمیہ بن خلف کا نام آیاہے۔
|